لائن آف کنٹرول: ’ہمیں مورچے بنا کر دیں‘

ایک سنیئر آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لائن آف کنٹرول پر کمیونٹی بنکرز کی تعمیر کے لیے درکار مالی وسائل پاکستان کے زیر اتنظام کشمیر کی حکومت کے پاس موجود نہیں۔

گذشتہ دنوں وادی نیلم میں ہوئی بھارتی گولہ باری میں کم از کم چار افراد کی ہلاکت کے بعد اگرچہ حالات معمول پر ہیں تاہم کنٹرول لائن کے قریبی علاقوں میں خوف و ہراس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس خوف کی ایک بڑی وجہ کئی علاقوں میں لوگوں کے پاس فائرنگ کے دوران چھپنے کے لیے بنکر یا مورچوں کا نہ ہونا بھی ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر بھارتی گولہ باری سے متاثرہ علاقوں میں بسنے والے لوگ انجانے خوف میں مبتلا ہیں۔ وادی نیلم میں گذشتہ دنوں ہوئی گولہ باری کے دوران پھینکے گئے کلسٹر بم پھٹنے سے کم از کم چار افراد کی ہلاکت اور فائرنگ کے مختلف واقعات میں دو درجن کے لگ بھگ لوگ زخمی ہوئے۔ اگرچہ گذشتہ چند روز سے حالات معمول پر ہیں تاہم کنٹرول لائن کے قریبی علاقوں میں خوف و ہراس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس خوف کی ایک بڑی وجہ کئی علاقوں میں لوگوں کے پاس فائرنگ کے دوران چھپنے کے لیے بنکر یا مورچوں کا نہ ہونا بھی ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں میں لوگوں کے تحفظ کے لیے بنکر تعمیر کر کے دینے کا اعلان کر رکھا ہے تاہم اس سلسلے میں ابھی تک عملی اقدامات شروع نہیں ہو سکے۔ جب بھی فائرنگ ہوتی ہے تو لوگوں کی جانب سے بار بار یہی مطالبہ دوہرایا جاتا ہے کہ لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں میں عوام کے تحفظ کے لیے بنکر تعمیر کیےجائیں۔

سالخلہ گاوں کی 80 سالہ صاحب نور کا گھر حالیہ گولہ باری میں تباہ ہو گیا تھا۔ جس وقت گھر پر گولہ گرا، وہ اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں موجود تھیں۔ انڈیپنڈنٹ سے بات کرتے ہوئے صاحب نور نے بتایا: 'حالات اچانک سے خراب ہو گئے ہیں۔ ہمارے پاس نہ تو مورچے بنے ہیں نہ کوئی اور انتظام ہے۔ سمجھ نہیں آ رہا کیا کریں، کس طرف جائیں؟ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں کوئی کمانے والے ہے اور نہ روزگار میسر ہے۔  ہمارا کوئی نہ کوئی بندوبست کیا جائے۔'

صاحب نور کا  مزید کہنا تھاکہ ' ہمارا اپنا مورچہ نہیں۔ فائرنگ کے وقت کسی کے مورچے میں جا کررہنا پڑتا ہے۔ حکومت ہمیں اپنے مورچے بنوا کر دے۔ ہماری حفاظت کا کوئی نہ کوئی بندوبست کیا جائے۔ ہم کسی طرف جانے کی حالت میں بھی نہیں۔ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ مورچے بنوا سکیں۔ ہمیں مضبوط مورچے بنوا کر دیے جائیں۔'

اگرچہ گھروں کے ساتھ مورچوں کی تعمیر سے کسی حد تک تحفظ کا احساس ہو گا تاہم تعلیم علاج معالجے اور روزگار کے گھروں سے باہر جانے والے افراد خاص طور پر خواتین اور بچوں کا خوف دائمی ہے۔ سکولوں، ہسپتالوں اور عوامی مراکز کے قریب بنکر نہ ہونے کی وجہ سے فائرنگ کے وقت گھروں سے دور موجود افراد کو چھپنے کے لیے کوئی جگہ میسر نہیں ہوتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جس وقت گولہ باری شروع ہوئی بارہ سالہ نیلم فاروق اپنے گھر سے لگ بھگ پانچ کلو میٹر دور آٹھمقام کے ہسپتال میں تھیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے نیلم نے بتایا: ' جس وقت گولہ باری شروع ہوئی ہم اٹھمقام کے ہسپتال میں تھے۔ ہسپتال میں نہ تو کوئی مورچہ تھا اور نہ چھپنے کی کوئی جگہ۔ گولہ باری تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ ہسپتال کے ارد گرد بھی کئی گولے گرے اور اس سے ہسپتال کے کئی کمروں کو بھی نقصان پہنچا۔'

ایک سنیئر آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لائن آف کنٹرول پر کمیونٹی بنکرز کی تعمیر کے لیے درکار مالی وسائل پاکستان کے زیر اتنظام کشمیر کی حکومت کے پاس موجود نہیں۔ وفاقی حکومت نے اس سلسلے میں مالی وسائل فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی تاہم ابھی تک فنڈز فراہم نہیں کیے گئے۔ 'جب تک فنڈز مہیا نہیں کیے جاتے بنکرز کی تعمیر ممکن نہیں۔

مورچہ کیا ہے؟

گاؤں ’’پالڑی‘‘ کے رہائشی عارف خان بتاتے ہیں : لوگ فائرنگ سے بچنے کے لئے عارضی پناہ گاہیں بناتے ہیں جن کو مورچہ یا بنکر کہا جاتا ہے۔ مورچہ زیر زمین یا کسی چٹان کے نیچے بنایا جاتا ہے۔

کچھ لوگ اپنے گھروں کے تہہ خانوں کو مورچے میں بدل دیتے ہیں۔ آٹھ سے دس مربع فٹ کے اس کمرے میں داخلے کا ایک تنگ و تاریک راستہ ہوتا ہے جسے کرال کہا جاتا ہے۔ بنکر میں روشنی اور ہوا کا کوئی خاص انتظام نہیں ہوتا۔ جن علاقوں میں سیمنٹ سریا ریت وغیرہ پہنچانا آسان ہے وہاں لوگ پختہ مورچے بناتے ہیں ۔ جہاں جنگل قریب ہو وہاں لوگ بڑی بڑی گیلیوں سے ڈھانپ کر زمین دوزمورچے بناتے ہیں۔

''جنگل سے درخت کاٹنا قانوناً جرم ہے، لوگ چوری چھپے کاٹتے ہیں۔ اگر محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کو علم ہو جائے تو بھاری جرمانہ دینا پڑتا ہے۔'

ایک مورچے میں کتنے لوگوں کی گنجائش ہوتی ہے؟

اس سوال کا جواب شاردہ کے لعل خان یوں دیتے ہیں: ’جگہ اور تعمیرتی میٹریل کی دستیابی کے مطابق بنکر کا سائز چھوٹا یا بڑا ہو سکتا ہے۔ لوگ اپنی ضرورت کے لئے خاندان کے سائز کے مطابق چھوٹے بنکر بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ چھوٹا بنکر مضبوط ہوتا ہے۔'
چھوٹے سائز کے بنکر میں پانچ سے چھ لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے تاہم ماضی میں جب فائرنگ ہوتی تھی تو ان چھوٹے چھوٹے مورچوں میں بیس تیس افراد بھی سما جاتے تھے۔ ماضی میں بعض مقامات پر غیر سرکاری تنظیموں نے بڑے بڑے کمیونٹی بنکر بنائے جن میں پچاس افراد تک کی گنجائش ہوتی تھی۔
کیا مورچہ فائرنگ سے تحفظ کے لئے کافی ہے؟

عارف خان کے بقول دل کو تسلی دینے کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن مورچہ آپ کوگولہ باری سے بچانے کا ضامن نہیں ہو سکتا۔ ماضی میں جو بڑے بڑے گولے برسائے گئے ان کے سامنے مورچے کی کوئی حیثیت نہیں۔ ’ویسے بھی فائرنگ کسی طے شدہ شیڈول پر تو ہوتی نہیں کہ آپ اس وقت لازماً بنکر میں ہوں۔ وہاں تک پہنچتے پہنچتے بھی کئی لوگ زخمی ہو جاتے ہیں یا مارے جاتے ہیں۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان