تاجروں کے لیے نئی ٹیکس سکیم، مزاحمت جاری

پاکستان کی تاجر تنظیموں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی تاجروں اور چھوٹے دوکانداروں کے لیے متعارف کی گئی نئی ٹیکس سکیموں کو مسترد کر دیا ہے۔

مجوزہ سکیموں کا اعلان تاجروں کی ملک گیر دو روزہ ہڑتال سے دو ہفتے قبل کیا گیا (اے ایف پی)

پاکستان کی تاجر تنظیموں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی تاجروں اور چھوٹے دکانداروں کے لیے متعارف کی گئی نئی ٹیکس سکیموں کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا ہے کہ ان پر عمل درآمد ممکن نہیں ہے۔

ملک بھر کے تاجر نمائندے مجوزہ ٹیکس سکیموں میں موجود کاغذی کارروائیوں کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں۔ جنہیں ان کے مطابق ناخواندہ اور نیم خواندہ دکانداروں اور تاجروں کے لیے پورا کرنا بہت مشکل ثابت ہوگا۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے گذشتہ جمعرات کو چھوٹے تاجروں اور دوکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کے لیے تین مختلف سکیمیں متعارف کیں۔ جن پر وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد عمل درآمد کیا جائے گا۔

ان سکیموں کے ذریعے چھوٹے تاجروں اور دکانداروں کو ان کی کاروباری جگہ (دکان وغیرہ) کے سائز اور کاروبار کے سالانہ حجم کے مطابق ایک مخصوص رقم ٹیکس کے طور پر ادا کرنا ہو گی۔

تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ مجوزہ سکیموں کا اعلان تاجروں کی ملک گیر دو روزہ ہڑتال سے دو ہفتے قبل کیا گیا۔

ملک بھر کے تاجروں اور دوکاندار کی مختلف تنظیموں نے تحریک انصاف حکومت کی معاشی پالیسیوں کے خلاف 15۔16 اور 26۔27 اگست کو شٹر ڈاون ہڑتال کی کال دے رکھی ہے۔

مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے صدر محمد کاشف چوہدری کا کہنا تھا کہ فکسڈ ٹیکس سکیم ایک ناقابل عمل سکیم ہے اور ملک بھر کے تاجر اسے مسترد کرتے ہیں۔

کاشف چوہدری کے مطابق: چھوٹے تاجروں اور دکانداروں کی اکثریت کم تعلیم یافتہ ہے۔ ایسے میں وہ کیسے انگریزی زبان میں لکھے ہوئے کاغذات پُر کر سکتے ہیں۔

’ایسے میں ان سے نہ صرف غلطیاں ہوں گی بلکہ ان غلطیوں کی وجہ سے وہ مزید پھنستے چلے جائیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سکیموں میں جو پابندیاں لگائی گئی ہیں ان کے تحت صرف نان چنے، پنکچر شاپ، چائے سٹال، پان سگریٹ والے ہی ان میں شامل ہو سکیں گے۔

کاشف چوہدری نے کہا کہ ایف بی آر نے تاجروں اور دکانداروں کے نمائندوں سے مشاورت کے بغیر یہ سکیمیں بنائی ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ بالکل ناقابل عمل ہیں۔

انھوں نے چھوٹی بڑی سب دوکانوں پر کاروبار کے حجم کے حساب سے مناسب شرح فکسڈ ٹیکس عائد کرنے کا مشورہ دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ نئی سکیموں میں چھوٹے تاجروں اور دوکانداروں کے لیے کئی مراعات بھی شامل ہیں۔ تاہم تاجر تنظیموں کے رہنما ان سب سہولتوں کو تاجر برادری سے غیر منصفانہ طریقوں سے ٹیکس اور رشوت لینے کے طریقے قرار دیتے ہیں۔

آل پاکستان انجمن تاجران کے مرکزی سیکریٹری جنرل محمد نعیم میر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ان سکیموں سے غیر قانونی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا اور خصوصاً چھوٹا تاجر، ایک عام دکاندار ایف بی آر کے چنگل میں پھنس جائے گا اور ہمیشہ بلیک میل ہوتا رہے گا۔

آل پاکستان انجمن تاجران خیبر پختون خوا کے صدر شرافت علی مبارک نے کہا کہ چھوٹے کاروباری اور دکاندار حکومت کو ٹیکس دینے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا: گھر میں بچہ سب سے زیادہ کم تعلیم یافتہ ہوتا ہے اسے دوکان پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ تو پاکستان میں دکانداروں کی اکثریت کم پڑھی لکھی ہے۔ اس لیے ان سے یہ امید نہ رکھیں کہ وہ اتنی ساری کاغذی کاروائی میں ملوث ہو سکیں گے۔

شرافت علی مبارک نے کاروباری مقام کے سائز کے حساب سے ٹیکس لگانے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا: بعض بڑی دوکان میں کاروبار کا حجم کم ہوتا ہے۔ اور ایک کھوکھے میں کروڑوں کا بزنس ہو رہا ہوتا ہے۔

اسلام آباد میں میلوڈی مارکیٹ کے تاجروں کی نمائندہ تنظیم کے صدر اظہر اقبال کا کہنا تھا: ایک چھوٹے دوکاندار کو بھی ٹیکس کا حساب کتاب رکھنے کے لیے بندہ رکھنا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ دوکانداروں کی بڑی اکثریت ٹیکس کے کاغذات کو سمجھتے بھی نہیں ہیں۔ وہ انہیں پر کیسے کریں گے؟

ایف بی آر کے اعدادو شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں اڑتالیس لاکھ رجسٹرڈ انکم ٹیکس دہندہ ہیں۔ جبکہ گذشتہ سال (2018) میں صرف بائیس لاکھ لوگوں نے انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع کروائے۔

سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ملک بھر میں بجلی کے اکتیس لاکھ کمرشل میٹرز لگے ہوئے ہیں تاہم یہ میٹر ایسے کاروباری مراکز میں بھی نصب ہیں جنہیں دوکان نہیں کہا جا سکتا۔ مثلا ٹریڈنگ ایجنٹس، ڈسٹری بیوٹرز، نجی دفاتر وغیرہ۔

شرافت علی مبارک کا خیال ہے کہ پاکستان میں دکانوں اور چھوٹے تاجروں کے کاروباری مراکز کی تعداد کم از کم دس سے پندرہ لاکھ ہو سکتی ہے۔

اس لحاظ سے ان تاجروں اور دکانداروں سے اکٹھا ہونے والا سالانہ ٹیکس اربوں روپوں کا ہو سکتا ہے۔

معاشی امور پر لکھنے والے صحافی ذیشان حیدر کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کسی طرح ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور چھوٹے تاجر اور دوکاندار پر ابھی تک کوئی براہ راست ٹیکس نہیں لگا۔ یہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کی اچھی کوشش ہے۔ تاہم لگتا ہے کہ ہوم ورک ذرا کم تھا۔

اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے سابق صدر ظفر بختاوری کے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کو ہر کاروباری فرد اور ادارے کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا: فائلر اور نان فائلر کی تفریق بھی بالکل غلط ہے۔ اس قسم کی مراعات دینے سے نظام کی روح ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔

ظفر بختاوری کا کہنا تھا: چھوٹا تاجر ہو یا بڑا، خواندہ ہو یا ناخواندہ۔ سب پر ٹیکس کی ادائیگی لازم ہے اور ہونی چاہیے۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت