کراچی کے کچرے میں دبی اک امید

کراچی کی سڑکوں پر پلاسٹک شاپرز ہوا کے دوش پر دیوانہ وار رقصاں ہیں۔ہر دو قدم بعد بچوں کے استعمال شدہ ڈائیپرزکا قالین سابچھا ہے۔ابلتے نالوں کے تعفن کےآگے پرفیوم ٹک نہیں سکتے.مگر اک امید باقی ہے

 کراچی میں گذشتہ برس کے عام انتخابات کے دوران ایک آزاد امیدوار ایاز میمن کچرے کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے۔ (اے ایف پی) 

ہمارے پیارے نبی کا فرمان ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ اس حساب سے کراچی والوں کو اپنے نصف ایمان کی فکر کر ہی لینی چاہیئے۔ کچھ آنکھوں دیکھے کراچی والوں کے خاکے لکھ رہی ہوں، اگر میرے قاری کو ان میں اپنی جھلک نظر آئے تو پیشگی معذرت!

کراچی کی ایک خاتون خانہ چکاچک گھر چمکاتی ہیں۔ ان کا روز کا معمول ہے کہ جھاڑو سے جمع ہونے والی مٹی، منے کے شدید بدبودار ڈائیپرز، پلاسٹک کے ٹوٹے چند کھلونے، چاول کی دیگچی کی کھرچن، بریانی کی بچی ہڈیاں، بچی ہوئی روٹی، گھر کی لڑکیوں کے بالوں کے گچھے، خالی ٹین کے چند ڈبے اور چٹخنے والے گلاس کو لیا اور پچھلی رات سودا سلف کے ساتھ آنے والے بڑے سے شاپر میں بھرا اور منے کے ابا کو دفتر جانے سے پہلے تھما دیا۔ صاحب نے کچرے  کا تھیلا لیا اور چند گز دور کچرا کنڈی تک نہ گئے بلکہ روز کی طرح اک شان بےنیازی سے گلی کے عقب میں بہتے نالے کے منہ پہ رسید کیا۔ ڈبل چیک کے لیے اک نظر پھر دوڑائی کہ ہمارے کارنامے کالے پانی میں بہہ گئے کہ نہیں۔ آیا نشانہ چوکا تو نہیں۔

یہ بالکل وہی شان ہے جو اک ادا سے گٹکے کی پیک تھوکتے ہوئے انہیں محسوس ہوتی ہے جب منہ میں بھرا سرخ لعاب ہونٹوں کی اک چونچ سی بنا کر کچھ ایسی نفاست سے تھوکتے ہیں کہ اپنے کپڑوں پر اک دھبہ نہیں آتا مگر دیوار پر تجریدی آرٹ بن جاتا ہے۔ صاحب کا دل کرتا ہے کہ انہی لال ہونٹوں سے اپنا منہ چوم لیں، واہ یہ ہوتا ہے ٹیلنٹ۔

یہ مشقت تو کراچی میں مکانوں کے رہائشی اٹھاتے ہیں۔ اب آدھے سے زیادہ شہر فلیٹوں میں رہنے لگا ہے۔ فلیٹ میں رہنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہاں کہ مردوں کو نالے تک جانے کی زحمت نہیں اٹھانی پڑتی۔ ان فلیٹس کے رہائشی جب دل کرے کچرے کی تھیلی کھڑکی سے گھما کر پھینک سکتے ہیں۔ گند سے بھری یہ تھیلی کتنی دور جا کر گرتی ہے یہ اپنے اپنے زور بازو پر منحصر ہے۔ فلیٹ کی کھڑکی سے کچرا نیچے  پھینکنے کا یہ فن آسان ہے اسی لیے گھر کا ہر فرد اس میں طاق ہوتا ہے۔ یہ بیچارے فلیٹوں والے بھی کراچی کے کچرے سے بڑے پریشان ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کراچی کے بزرگ گلیوں میں ابلتے گٹر کے ناپاک پانی سے اپنے پائنچے اور اپنا وضو بچا کر چلتے ہوئے بہت بڑ بڑاتے ہیں۔ یہ بزرگ کریں بھی تو کیا کریں انہی گلیوں میں جہاں گٹر کا پانی ہے یہاں تو ان کے بچوں  نے اپنے قربانی کے جانور کا گوبر پھیلانے کا خواب سجایا تھا۔ جتنا زیادہ گوبر ہوگا محلے والوں کو اتنا ہی پتہ چلے گا کہ حاجی صاحب کے گھر کالا بیل آیا ہے۔ بیچ میں ہمارا بیل ہوگا اور چہار جانب بدبو کے بھبکے۔ بیچاروں کے خواب ادھورے رہ گئے ہیں  کیونکہ فی الحال گٹر سے ابل کر کھڑا ہونے والا کالا پانی منہ چڑا رہا ہے۔

کراچی میں انڈسٹری کے مالکان  کے گھر لاکھ جنت نظیر ہیں۔ گاڑی بھی لشکارے دار مگر ان کے کام کی جگہ یعنی انڈسٹریل ایریا تو نرا گند، کباڑ خانہ ہے۔ جس کمپنی سے وہ کروڑوں کا بزنس کرتے ہیں اس سیٹ اپ سے نکلنے والا انڈسٹریل ویسٹ، کیمیکل ویسٹ بھلا کیا پیک کرکے اپنے گھر لے جائیں؟ سو یہی سوچ کر اسے شہر کے بڑے نالے میں بہانے کا خاص انتظام کیا جاتا ہے۔ کچھ صاحب ثروت اس فیکٹری ویسٹ کو سمندر برد کرکے اسے شہر پر اپنا احسان گردانتے ہیں۔

کراچی کے پارکوں میں جہاں ہریالی نے لہلہانا تھا وہاں کچرے کے ڈھیر ہیں، شہر کی بڑی شاہراہوں پر پلاسٹک کے شاپرز بحیرہ عرب کی ہواوں میں دیوانہ وار رقص کرتے ہوئے یہاں وہاں اڑے جا رہے ہیں۔ ہر دو قدم بعد غلیظ بدبودار استعمال شدہ ڈائیپر کا قالین سا بچھا ہے۔ آپ دنیا کے بہترین پرفیوم میں نہا لیں جگہ جگہ ابلتے گندے نالوں کے تعفن کا مقابلہ آپ پھر بھی نہیں کرسکتے۔ کچھ سال پہلے جن علاقوں میں بنگلے تھے اب بنگلے والوں نے پیسہ لگا کر پلازہ بنا لیا ہے، جس دروازے سے پہلے ایک گھر کا کچرا نکلتا تھا اب وہاں تیس تیس گھرانے کرائے پر مقیم ہیں۔

پہلے جہاں سو فٹ چوڑا نالہ ہوا کرتا تھا اب وہاں کچے پکے گھر بنے ہیں جن کے بیچ دبی اک نالی بہہ رہی ہے۔ بندر روڈ جس کی  ایک زمانے میں ہر روز دھلائی ہوتی تھی اب وہاں سے واپس آو تو اپنے ہاتھ منہ  اور کپڑے دھونے پڑ جاتے ہیں۔ کراچی کے ساحل جہاں چاندی کی سی شفاف لہریں آتی جاتیں تھیں اب وہ لہریں ہمارے پاوں چھونے سے پہلے کسی چپس کے خالی پیکٹ کو چومتی ہوئی سیگریٹ کی خالی ڈبی سے ٹکرا جاتی ہیں۔

یہ سب لکھ کر تو کتھارسس کر لیا اب سوال یہ ہے کہ وہ مکان میں رہنے والے صاحب، یا فلیٹ میں رہنے والی بیگم یا پھر گندگی گلی کے حاجی صاحب اور وہ انڈسٹری کے مالک کریں بھی تو کیا کریں؟ ظاہر ہے ان سب کے پاس اسامہ بن لادن والا ایبٹ آباد کمپاونڈ تو ہے نہیں کہ جہاں مکان کا کچرا گھر کے اندر دفنانے کا انتظام  کریں۔ کچرا پھینکنے والی چیز ہے بالاخر پھینکنا تو پڑے گی مگر یہ حکومتیں کر کیا رہی ہیں؟

کراچی پر اس وقت پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور کنٹونمنٹ کا ادارہ   بیک وقت حکومت کر رہے ہیں۔ کراچی کا میونسپل ویسٹ، کمرشل ویسٹ اور میڈیکل ویسٹ ٹھکانے لگانے کے لیےڈسٹرکٹ کونسل، کراچی کی شہری حکومت، صوبائی حکومت، وفاقی حکومت اور سندھ سالڈ ویسٹ منجمنٹ    والے ذمہ دار ہیں۔ کراچی میں کچرا جمع کرنے کا معقول نظام ہو تو عوام زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتی ہے کہ یہاں وہاں اچھالنے کی بجائے اس کچرا پوائنٹ تک اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ پھینکا جائے۔ اس سے زیادہ نہ تو عوام کی ذمہ داری ہے نہ ہی ان میں اتنی سکت کہ اپنے گھر کا کچرا سیدھے لینڈ فل سائٹ تک پہنچائیں۔

کراچی کو کچرے سے پاک اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب کراچی پر اپنا حق جتانے والے تمام سول ادارے خواہ وہ وفاقی ہوں، صوبائی یا شہری، سب کی ایک ہی پالیسی ہو۔ ویسٹ منجمنٹ کے لیے ایک جامع سول ایجنسی بنے، اس ایجنسی کو بڑا بجٹ ملے، خاکروب سے لے کر انجینئرز تک ہزاروں ورکرز ملیں، جدید ٹیکنالوجی ملے معیاری مشینری ملے اور کراچی میں آبادی سے ذرا پرے اس کا ہیڈ کوارٹر بنایا جائے۔ کرنے والوں کا ارادہ ہو تو کچھ بھی ممکن ہے، اگر یہ سب کامیابی سے ممکن ہو جائے تو پھر اگلا مرحلہ ویسٹ ری سائیکلنگ کا ہے، یعنی کاغذ، دھات اور پلاسٹک کے کچرےکو پھر سے قابل استعمال بنانے کی جانب بڑھا جائے۔

کراچی کے کچرے کی اس بڑے پیمانے پر ری سائیکلنگ تو فی الحال دیوانے کا خواب ہے مگر کچرے کے من من بھر کے ڈھیر تلے اک ننھی سی امید دبی ہے کہ شاید اس شہر کا چہرہ پھر نکھر سکے۔ کیا پتہ پھر سے کراچی کی سڑکوں کو صبح سویرے پانی سے دھویا جائے، بارش آئے تو شہر گندے پانی کا جوہڑ بننے سے پہلے ہی خشک ہو جائے، کسے خبر کہ کب کراچی کے باغات میں اڑتی دھول بیٹھ جائے اور پھر سے پھول کھلیں۔ کراچی والے ’کلین کراچی‘ مہم سے بڑی خوش گمانیوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ علی زیدی صاحب سُن رہے ہیں نا آپ!

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر