ناروے حملہ: ’مسلح نوجوان نے انگلی میری آنکھ میں گھسیڑ دی تھی‘

النور اسلامی مرکز پر حملہ ناکام بنانے کی داستان پاکستان ایئرفورس کے 65 سالہ سابق افسر محمد رفیق کی زبانی

65  سالہ محمد رفیق   ہتھیاروں سے لیس 21 سالہ فلپ مینشاؤس کو  قابو کرنے میں کامیاب رہے تھے جو مبینہ طور مسجد میں گھس کر قتل عام کا ارادہ رکھتا تھا۔ (تصاویر: روئٹرز/ ای پی اے)

پاکستانی فوج کے 65 سالہ سابق افسر کو عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے جنہوں نے ہفتے کو ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے قریب واقع شہر بیرم کی ایک مسجد میں حملے کو ناکام بنایا۔ وہ ہتھیاروں سے لیس اُس نوجوان کو قابو کرنے میں کامیاب رہے تھے جو مبینہ طور مسجد میں گھس کر قتل عام کا ارادہ رکھتا تھا اور جس کی سوچ مسلمانوں سے دشمنی پر مبنی تھی۔

محمد رفیق نے بتایا کہ انہوں نے النور اسلامی مرکز میں داخل ہونے والے مشتبہ شخص کو زمین پر گرا لیا۔ بعد میں دو مزید افراد محمد رفیق کی مدد کو پہنچے اور حملہ آور کو دبوچ لیا۔

محمد رفیق کی تیزی سے کی گئی کارروائی کی بدولت وہ حملہ ناکام ہو گیا جس کی وجہ سے اس سال کے شروع میں نیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ کی مساجد پر نمازِ جمعہ کے دوران کیے گئے حملوں کی تکلیف یادیں تازہ ہوجاتیں، جن میں 51 افراد کی جان چلی گئی تھی۔

پولیس کے قائم مقام سربراہ رون سکجولڈ نے ایک بیان میں کہا: ’بلاشبہ مسجد کے اندر موجود افراد نے تیزی سے اور نپی تلی کارروائی کرکے حملہ آور کو روک دیا۔ ان افراد نے بلند حوصلے کا مظاہرہ کیا۔‘

النور اسلامی مرکز پر حملہ عیدالاضحیٰ سے ایک روز پہلے ہوا۔ اسلامی کیلنڈر میں عام تعطیلات کی فہرست میں عید الاضحیٰ کے دن کی چھٹی اہم ترین ہے جو حج کے اختتام پر کی جاتی ہے۔ محمد رفیق اور دو دیگر افراد عیدالاضحیٰ کی تیاریوں کے سلسلے میں مسجد میں موجود تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ناروے کے حکام اب اس حملے کو مبینہ طور پر دہشت گردی کی کارروائی کے طور پر لے رہے ہیں۔ ناورے کی وزیراعظم ارنا سولبرگ نے ہفتے کے روز پیش آنے والے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’ناروے کے مسلمانوں پر براہ راست حملہ‘ قرار دیا ہے۔

انہوں نے فیس بک پر لکھا: ’یہ مذہبی آزادی پر حملہ تھا۔‘

حملہ آور جس کی درست عمر کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا، تاہم سرکاری دستاویز میں اس کی عمر 21 یا 22 سال ظاہر کی گئی ہے۔

محمد رفیق کے وکیل عبدالستار علی نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو ٹیلی فون پر ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان کے مؤکل کو مشتبہ شخص پر قابو پانے کے دوران سر، ہاتھوں اور آنکھ کے قریب چوٹیں آئیں۔

محمد رفیق نے روئٹرز کو بتایا: ’مجھے اچانک باہر گولیاں چلنے کی آواز سنائی دی۔ حملہ آور نے رائفل کا رخ دوسرے افراد کی طرف کرکے گولیاں چلانی شروع کر دیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے گولیاں چلانے والے کو قابو کرنے میں تیزی دکھائی اور اسے زمین پر گرا کر ہتھیار چھین لیے۔ بعد میں موقع پر موجود دوسرے افراد بھی ان کی مدد کو پہنچ گئے۔

پاکستان ایئرفورس کے سابق افسر محمد رفیق نے بتایا: ’اس نے اپنی پوری انگلی میری آنکھ میں گھسیڑ دی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ مشتبہ شخص کے پاس ایک سے زیادہ ہتھیار تھے۔ دوسری جانب برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق اسلامی سینٹر کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ مشتبہ شخص نے زرہ بکتر اور ہیلمٹ پہن رکھے تھے۔

ناروے کے حکام نے ابھی تک عام نہیں کیا کہ حملے میں کتنی گولیاں چلائی گئیں اور کس قسم کے ہتھیار استعمال کیے گئے۔

اسلامی سینٹر کے ڈائریکٹر علی کی جانب سے مسجد میں حال ہی میں اضافی حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں، جن میں سامنے کے ایک دروازے کی تنصیب بھی شامل ہے جو صرف کوڈ کے ذریعے کھلتا ہے۔ یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ان حفاظتی انتظامات نے حملہ آور کو روکنے میں مدد دی تھی یا نہیں۔

اتوار کو ناروے کے حکام نے کہا تھا کہ النور اسلامی مرکز پر حملے کے ملزم نے ’غیر ملکی تارکین وطن کے خلاف دشمنی پر مبنی رویے کا اظہار کیا تھا‘ اور وہ ان اطلاعات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ ملزم نے حملے کا اعلان ایک آن لائن پوسٹ میں کیا تھا، جس میں کرائسٹ چرچ اور ایل پاسو میں فائرنگ کرنے والوں کا حوالہ دیا گیا تھا۔

ملزم عدالت میں پیشی کے دوران مسکراتا رہا

دوسری جانب مسجد پر حملے کے ملزم کو عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ پیشی کے وقت ان کی آنکھوں کے نیچے سیاہ رنگ کے نشانات موجود تھے۔

21 سالہ فلپ مینشاؤس کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے ناروے کے شہر بیرم کے قریب واقع النور اسلامی مرکز کو ہدف بنانے سے پہلے اپنی سوتیلی بہن کر قتل کر دیا تھا۔

کہا گیا ہے کہ فلپ مینشاؤس کے چہرے پر آنے والی خراشیں مسجد کے اندر ہونے والی لڑائی کے دوران آئیں، جہاں 65 سالہ نمازی محمد رفیق حملہ آور سے اُس وقت ہتھیار چھیننے میں کامیاب ہو گئے تھے جب انہوں نے گولیاں چلانی شروع کی تھیں۔

عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران فلپ مینشاؤس مسکراتے رہے لیکن کچھ بولے نہیں۔ ان کی وکیل اونی فرائز نے بعد میں رپورٹروں کو بتایا کہ ’وہ اس وقت کسی بات کی وضاحت نہ کرنے کا اپنا حق استعمال کریں گے۔‘

وکیل اونی فرائز کے مطابق ان کے مؤکل اوسلو میں رہتے ہیں اور وہ 1997 میں پیدا ہوئے۔

ہفتے کو حملے کے بعد پولیس نے کہا کہ فلپ مینشاؤس کو امید تھی کہ وہ ان اطلاعات کو دبانے میں کامیاب ہو جائیں گے جن میں کہا گیا تھا کہ وہ کم از کم دو رائفلوں کے ساتھ مسجد کے اندر داخل ہوئے۔

جب پولیس افسران نے قریب ہی واقع ان کے گھر پر چھاپہ مارا تو انہیں وہاں سے ان کی 17 سالہ سوتیلی بہن کی لاش ملی۔شبہ ہے کہ انہیں پہلے ہی قتل کر دیا گیا تھا۔

پیر کو ہونے والی ایک پیش رفت کے مطابق ناروے کی داخلی سلامتی کے ادارے کے سربراہ نے کہا ہے کہ حکام کو ایک سال پہلے ملزم کے بارے میں ’مبہم‘ اطلاع ملی تھی، تاہم وہ کسی قسم کی کارروائی کے لیے ناکافی تھی کیونکہ انہیں حملے کے ’ٹھوس منصوبوں‘کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔

ناروے کی پولیس سیکیورٹی سروس کے سربراہ ہینز سویر سجووولڈ نے پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ ان کے ادارے کو روزانہ کئی اطلاعات ملتی ہیں۔اس کیس میں جو اطلاعات فراہم کی گئیں وہ ’ایک دہشت گرد حملے کی منصوبے بندی کی جانب اشارہ نہیں کرتیں۔‘

ملزم کی وکیل نے ناروے کے ذرائع ابلاغ کی اُن قیاس آرائیوں پر تبصرے سے انکار کر دیا ہے کہ فلپ مینشاؤس کرائسٹ چرچ حملے سے متاثر تھے جہاں ایک مسلح شخص نے مارچ میں 51 افراد کو قتل کر دیا تھا۔

ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق ممکنہ دہشت گرد نے آن لائن لکھا تھا کہ حملے کے لیے انہیں کرائسٹ چرچ کے حملہ آور نے ’منتخب‘کیا۔

استغاثہ نے عدالت سے درخواست کی کہ ملزم کو چار ہفتے کے لیے ان کی تحویل میں دیا جائے تاکہ وہ ان سے دہشت گردی کے الزام کے حوالے سے پوچھ گچھ کر سکیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا