کشمیر۔۔۔ احمقوں کی جنت۔۔۔

انہی صاحب یکتا سے جو اچانک ہی ملاقات ہو گئی تو دیکھا حضرت آج حالات حاضرہ پر تبصرے کے موڈ میں ہیں۔ آنکھیں بند کیے مراقبے کی حالت میں فرمانے لگے یہ جو آج کل کشمیر کے مسئلے پر قوم کی حالت ہے، یہ سب احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔۔۔!!!

ننھے ننھے معصوم بچوں پر سے گزر ہوا۔ سبز اور سفید میچنگ لباس، معصوم گالوں پر ایک طرف پاکستان کا جھنڈا پینٹ کیے ہوئے اور دوسری جانب کشمیر کا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

آنکھیں کھل گئیں۔ بند ذہن کے دریچے وا ہو گئے۔ ساری دھند چھٹ گئی۔ ایسا محسوس ہونے لگا جیسے پہلی بار حقیقت سے آشنائی ملی ہو۔ یوں لگا زندگی جہالت کی ایک ایسی کال کوٹھڑی میں گزاری تھی جسے بس یہی ایک آشنائی درکار تھی۔ برسوں سے عقل پر جمی گرد اور دل پر جما بوجھ یکدم ایک ساتھ ہی ہٹ گئے۔ سب کچھ صاف صاف نظر آنے لگا۔

جی کیا ایسی فرسودہ عقل پر ماتم کرنے کسی جنگل بیاں باں میں نکل جاؤں، خود کو کوسوں، قسمت کو روں پیٹوں اور تمام عمر خود کو ہی اپنی شکل نہ دکھاوں۔۔۔ آپ سوچتے ہوں گے ایسی کیا کایا پلٹی، ایسا کیا اچنبھا ہو گیا۔۔۔ تو سنئیے۔۔۔آج ایک صاحبِ عقل و کمال، دانا و بینا، فہم و فراست سے اچانک ہی ملاقات ہوگئی۔ سر تا پا منبع و مرقع فہیم و عظیم۔ ایسے صاحبِ ادراک کہ کُل عالم ان کی بیعت کو ہمہ گو تیار۔ ایسے صاحبِ ہوش کہ مریدین وجد میں ان پر متاعِ حیات لٹا دیں لیکن مجال ہے کہ ان کی نظر بینا و دانا ایک آنے کی بھی چُوکے یا ایک آنے پر سے بھی چُوکے۔۔۔

بیک وقت سخن فہم، سخن سنج و سخنداں۔۔۔ دور دور سے لوگ ان کے آستانے پر عقل و فہم کے گمشدہ موتیوں کی تلاش میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ سو جناب انہی صاحب یکتا سے جو اچانک ہی ملاقات ہو گئی تو دیکھا حضرت آج حالات حاضرہ پر تبصرے کے موڈ میں ہیں۔ آنکھیں بند کیے مراقبے کی حالت میں فرمانے لگے یہ جو آج کل کشمیر کے مسئلے پر قوم کی حالت ہے، یہ سب احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔۔۔!!!

حضرت کی آنکھیں تو بند تھیں لیکن میری آنکھیں کھل گئیں۔ بند ذہن کے سب دریچے وا ہو گئے۔ ساری دھند چھٹ گئی۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ پہلی بار حقیقت سے آشنائی ملی ہو۔ ستر سال کی حماقت سے پلک جھپکتے ہی آگاہی مل گئی۔ کفِ افسوس ملنے کو جی چاہا کہ اتنی دہائیوں سے ایسے صاحبِ دانا و بینا کے علم و گہر کے یہ موتی ایسی احمق قوم پر کیوں نہ چھلکے۔

قوم کی قسمت پر افسوس اور اپنی قسمت پر رشک کرتے ان صاحبِ یکتا و بے مثال کی محفل سے جو باہر نکلے تو سامنے سڑک پر ہی کوئی اسّی پچھتر سال کے بابا جی سڑک پر اپنا صافہ بچھائے تپتی دوپہر میں سبز و سفید جھنڈے، جھنڈیاں، بیجز، چھوٹے چھوٹے سٹیکر بیچتے نظر آئے۔ بابا جی کے پاس سے گزرتے ایک لمحے کو ان کے سامان پر نظر ڈالی تو دیکھا اس بار پرچموں پر کچھ نیا ہے۔ ایک جھنڈا اٹھایا تو دیکھا کہ پرچمِ ستارہ و ہلال کے نیچے کشمیر بنے گا پاکستان لکھ رکھا تھا۔ چونکہ تازہ تازہ ہی صاحبِ دانا و بینا کی محفل سے نکلے تھے، نئی نئی آگہی ملی تھی، بابا جی کی طرف ایسے دیکھا جیسے کوئی صاحب عالم و فاضل ایک جاہل کی طرف۔ پوچھا بابا جی ایہہ کیہہ لکھیا جے ۔۔۔؟؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس نحیف و کمزور بوڑھے جس نے شاید کئی گھنٹوں سے کچھ کھایا پیا نہیں تھا، اپنا کمزور ہاتھ ہوا میں بلند کرتے ہوئے بتایا ’پتر کشمیر بنے گا پاکستان۔۔۔‘ ہم نے فوراً کچھ بولنے اور بوڑھے باباجی کو سمجھانے کےلیے لب ہلائے لیکن پھر سوچا کہ یہی تو وہ قوم ہے جو ستر سال سے احمقوں کی جنت میں رہ رہی ہے اور ان باباجی کی تو عمر گزر گئی انہیں اب کیا سمجھانا۔۔۔ احمق کہیں کا! دل ہی دل میں الفاظ ادا کیے اور اپنی تازہ ترین نئی نویلی آگہی کا غرور دل میں لیے اس احمق قوم کا تماشہ دیکھنے آگے بڑھ گئے۔

چودہ اگست ہے خوب گہما گہمی ہے۔ ہر گلی ہر سڑک ہر چوراہے ہر محلے ہر کالونی میں جہاں دیکھو سبز ہلالی پرچموں کی تو گویا بہار آئی ہوئی ہے۔ قوم کا جوش و جذبہ آزادی دیکھ کر خون منوں ٹنوں کے حساب سے بڑھ گیا۔ ایسی زندہ دل غیرت مند اقوام ہی اپنے درخشاں ماضی اور روشن مستقبل کی امین ہوتی ہیں۔ جہاں جہاں سے گزرتے لوگ ٹولیوں کی صورت میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ملتے لیکن ساتھ ہی کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ بھی لگا دیتے۔۔ احمق کہیں کے! اب کون اس قوم کو سمجھائے۔۔۔ کیسے انہیں آگاہی دے کہ احمقوں کی جنت میں رہنا اب بند کر دیں۔

ٹہلتے ٹہلتے سوچتے ایک پارک سے گزرے تو ننھے ننھے معصوم بچوں کے پاس سے گزر ہوا۔ سبز اور سفید میچنگ لباس، معصوم گالوں پر ایک طرف پاکستان کا جھنڈا پینٹ کیے ہوئے اور دوسری جانب کشمیر کا۔ ایک بچے کی طرف دیکھا تو اس نے سر پر کشمیر بنے گا پاکستان کی تحریر سے نمایاں سبز ہلالی پرچمی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ ایک اور بچی کے ماتھے پر کشمیر بنے گا پاکستان والی پٹی سجی تھی اور اس پٹی کے اوپر دو ننھی ننھی پونیاں جو سبز اور سفید رِبن میں بنی تھیں۔ نظر اٹھا کر ان بچوں کے والدین کی طرف دیکھا تو انہوں نے جوشِ مسرت اور فخر میں ہماری طرف دیکھتے ہوئے بچوں کو اشارہ کیا اور آناً فاناً بچوں نے والدین کے ساتھ آواز سے آواز ملا کر پاکستان زندہ باد اور کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے اپنی معصوم بچگانہ آواز میں لگانے شروع کر دیے۔

ایک سانس میں بچوں کا نعرہ پاکستان زندہ باد ہوتا تو اگلی ہی سانس میں کشمیر بنے گا پاکستان۔ والدین نے فخریہ ہماری طرف دیکھا اور داد مانگتی نظروں سے پیغام دینا چاہا لیکن ہم نے ایک تاسف بھری نظر ان کی طرف ڈالی اور دل ہی دل میں کہا کیسے احمق والدین ہیں، کیا سکھا پڑھا رہے ہیں بچوں کو۔۔۔خود تو ساری زندگی احمقوں کی جنت میں رہتے گزار دی، اب اگلی نسل کو بھی اسی جنت میں ٹھہرائیں گے کیا؟

دل بہت خراب ہوا۔ افسردہ ہوا کہ جو آگہی ہم نے پائی وہ اس قوم تک کیوں کر پہنچائیں۔ احمقوں کی جنت میں رہنے والی اس 22 کروڑ عوام کو کیوں کر اس ایک آستانے کے علم و آگہی تک رسائی دلوائیں۔ جس گلی سے گزرو، جس سڑک پر جاؤ، پیدل سوار، مرد و خاتون، بچے بوڑھے سب کی زبان پر پاکستان زندہ باد۔۔۔ کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ ۔۔۔ پوری قوم کشمیر کے ساتھ یک جان دو قالب نظر آتی ہے۔ نوجوان ایک ہی سانس میں دو نعرے لگاتے ہیں اور پھولے نہیں سماتے۔ دل ہی دل میں قوم کی حالتِ زار پر کسمساتے، لیکن خود پر شکرانے کے ورد پڑھتے کہ احمقوں کی جنت سے باہر نکل آئے۔

جب گھر داخل ہوئے ٹی وی آن کیا تو ہر سکرین پر کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے، ترانے اور لوگوز نمایاں۔۔۔ سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ آخر اس قوم کو سمجھائیں تو کیسے سمجھائیں۔۔۔ 70 سال کی حماقت کا کوئی تو علاج ہوگا۔۔۔ کشمیر پر تین جنگیں لڑنے کا کوئی تو مداوا ہوگا۔۔۔ان جنگوں میں بہنے والے شہدا کے خون سے کوئی تو حیلہ بہانہ ہوگا۔۔۔ ان شہدا کی ماؤں کو کوئی تو دلاسہ ہوگا جو سکون دلا سکے کہ اب ہم احمقوں کی جنت سے باہر آگئے ہیں۔۔۔ جہادِ کشمیر کے نام پر جو جواں سال بیٹے ہم نے لٹائے اور گنوائے وہ متاع واپس پانے کا کوئی تو ذریعہ ہوگا؟۔۔۔ جہادی گروپوں کے نام پر جو آگ لگی اور لگائی، جو کالک ملی اور سہی، اسے بجھانے اور دھونے کا کوئی تو آبِ حیات ہو گا۔۔۔

کشمیر کے نام پر حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹتے وقت کوئی تو ایسی لکیر باقی رہ گئی ہوگی جہاں دستخط ہونے سے رہ گئے ہوں اور اسی لکیر کے نیچے اب ہم تازہ حروف میں لکھ سکیں کہ اب ہم احمقوں کی جنت سے باہر آگئے ہیں۔۔۔ کوئی تو بتلائے۔۔۔ کوئی راستہ تو دکھائے۔۔۔ کوئی تو سمجھائے کہ ہم احمقوں کی جنت میں سے باہر کیسے آئیں۔۔۔ اور جو باہر آجائیں تو کیا دانائی اور آگاہی کی جہنم میں جھلس نہ جائیں۔۔۔

 

------------

نوٹ: مندرجہ بالا تحریر منصف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ 
 

 

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ