برطانیہ: داعش میں شامل افراد کے بچوں کو ملک نہ آنے دینے کا فیصلہ

شمالی شام میں قائم کیمپوں میں اس وقت ایسے کم از کم 30 بچے اپنی ماؤں کے ساتھ مقیم ہیں جن کو داعش کی خلافت کے خاتمے کے دوران وہاں سے فرار ہونے پر حراست میں لیا گیا تھا۔

الہول کیمپ کا منظر۔ داعش کو چھوڑنے والے افراد کے لیے بنائے گئے کیمپوں میں سے الہول کیمپ سب سے بڑا ہے جہاں اس وقت تقریباً 11 ہزار غیرملکی شہری مقیم ہیں۔ (اے ایف پی)

برطانوی حکومت نے مبینہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ شام میں محصور داعش میں شمولیت اختیار کرنے والے برطانوی شہریوں کے بچوں کو برطانیہ آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

شمالی شام میں قائم کیمپوں میں اس وقت ایسے کم از کم 30 بچے اپنی ماؤں کے ساتھ مقیم ہیں۔ ان لوگوں کو داعش کی خلافت کے خاتمے کے دوران وہاں سے فرار ہونے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔

برطانوی حکومت پر شامی حکام اور امریکی حکومت کی طرف سے دباؤ ہے کہ ان بچوں کو خطرناک اور لوگوں سے کچھا کھچ بھرے کیمپوں سے واپس لایا جائے۔

اس سال کے شروع میں شمیمہ بیگم نامی خاتون کا شیر خوار بچہ ایک ایسے کیمپ میں آنے کے کچھ ہفتوں بعد فوت ہو گیا تھا۔ کم عمر شمیمہ بیگم نے 2015 میں برطانیہ کے علاقے بیتھنال گرین میں واقع اپنے گھر سے فرار ہو کر داعش میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

بچے کی موت کے بعد برطانوی وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ نے کہا تھا کہ وہ اس وقت کے بین الاقوامی ترقی کی برطانوی وزیر پینی مورڈانٹ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں کہ آیا ان بچوں کو باحفاطت واپس لایا جا سکتا ہے۔

اخبار ’دا ٹائمز‘ کے مطابق سابق برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید حکومتی پالیسی پر نظر ثانی کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ بچوں کو واپس لانے کے لیے برطانوی حکام کو شام بھیجنا بہت خطرناک ہو گا حالانکہ برطانوی امدادی کارکن اور صحافی شام میں قائم کیمپوں کے باقاعدگی سے دورے کرتے رہتے ہیں۔

بہت سے یورپی ممالک شام میں محصور بچوں کو واپس لا چکے ہیں۔ فرانس، جرمنی، ناروے اور ڈنمارک سب تھوڑی تعداد میں بچوں کو واپس لا چکے ہیں۔ ان بچوں میں زیادہ تر یتیم ہیں جن کے والدین داعش کی خلافت کے آخری دنوں میں مارے گئے تھے۔ آسٹریلیا حال ہی میں آٹھ بچوں سمیت ان دو آسٹریلوی شہروں کے پوتوں اور نواسوں کو واپس لایا ہے جو داعش کے لیے لڑتے رہے۔

داعش کی خلافت کے آخری مہینوں میں 70 ہزار کے قریب خواتین اور بچے بھاگ نکلے تھے۔ ان لوگوں کو سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) نے کیمپوں میں رکھا ہوا ہے۔ ایس ڈی ایف  زیادہ تر کردوں پر مشتمل ملیشیا ہے جو امریکہ اور برطانیہ کی مدد سے دہشت گرد گروپ داعش سے لڑتی رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

داعش کو چھوڑنے والے افراد کے لیے بنائے گئے کیمپوں میں سے الہول کیمپ سب سے بڑا ہے جہاں اس وقت تقریباً 11 ہزار غیرملکی شہری مقیم ہیں۔ داعش کے ساتھ مل کر لڑنے والے کوئی آٹھ سو یورپی جنگجو بھی ایس ڈی ایف کی حراست میں ہیں۔

برطانیہ اور دنیا بھر میں سکیورٹی سروسز کو تشویش ہے کہ شام میں زیرحراست شہری جو اب بھی انتہاپسند نظریات کے مالک ہیں انہیں بالآخر اپنے اپنے ملکوں میں واپسی کا راستہ مل جائے گا۔برطانوی حکومت کا خیال ہے کہ داعش سے وابستہ رہنے والی خواتین بھی قومی سلامتی کے لیے اتنا ہی بڑا خطرہ ثابت ہو سکتی ہیں جتنا برطانیہ واپس آنے والے مرد جنگجو ثابت ہو سکتے ہیں۔

اخبار ’دا ٹائمز‘ کے مطابق برطانوی بچوں کو جنگی علاقے میں چھوڑنے کا فیصلہ ساجد جاوید نے وزارت داخلہ چھوڑ کر چانسلر کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے کیا۔ ساجد جاوید کو یہ خدشہ تھا کہ بچوں کو برطانیہ لایا گیا تو ان کے والدین کو بھی واپس آنے کا قانونی جواز مل جائے گا۔

شام میں حراستی مراکز کے انچارج کرد حکام نے کہا ہے کہ برطانوی حکومت کا یہ فیصلہ ’بڑی غلطی‘ ہے کیونکہ بچوں کو اس طرح چھوڑ دینے سے خطرہ ہے کہ دہشت گرد انہیں بھرتی کرلیں گے۔

کرد خود مختار انتظامیہ کے امور خارجہ کے سربراہ عبدالکریم عمر نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’اگر یہ بچے اپنے ملک واپس نہیں جاتے، انہیں بحالی کے عمل سے گزار کر معاشرے میں شامل نہیں کیا جاتا تووہ مستقبل کے دہشت گرد بن جائیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’یہ بچے دہشت گردی کے ماحول میں پلے بڑھے ہیں۔ ان کے ذہنوں پر داعش کا دہشت گردی کا نظریہ نقش ہے۔ خاص طور پر وہ بچے جن کی عمر آٹھ برس سے زیادہ ہے۔ انہیں حراستی کیمپوں کے ماحول میں رہنے دینے کا مطلب دہشت گردوں کی نئی نسل تیار کرنا ہے جس سے نہ صرف ہمیں بلکہ پوری عالمی برادری کو خطرہ ہوگا۔‘

برطانوی وزارت داخلہ نے ان اطلاعات پر براہ راست تبصرے سے انکار کر دیا ہے۔

حکومتی ترجمان نے کہا: ’2011 سے خارجہ اور دولت مشترکہ دفتر نے شام کے سفر کے حوالے سے خبردار کر رکھا ہے اور شام میں برطانوی شہریوں کو قونصلر کی معاونت حاصل نہیں ہے۔‘

گذشتہ ماہ جاری ہونے والی ہیومن رائیٹس واچ کی رپورٹ میں الہول کے حراستی مرکز کی حالت زار کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے لوگوں نے غیرملکی خواتین اور بچوں کے لیے مخصوص علاقے کے تین دورے کیے جن میں پتہ چلا کہ ’وہاں بیت الخلا ابل رہے ہیں، گٹروں کا پانی خیموں میں داخل ہوتا ہے اور لوگ ان ٹینکیوں سے صفائی کے لیے استعمال ہونے والا پانی پی رہے ہیں جن میں کیڑے ہوتے ہیں۔‘

ہیومن رائیٹس واچ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا: ’بچے جن کی جلد پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے ہاتھ پیر کمزوراور پیٹ پھولے ہوئے ہیں، وہ سخت گرمی میں گندگی کے بدبودار ڈھیروں سے کچھ تلاش کرتے رہتے ہیں یا خیمے پر فرش پر پڑے رہتے ہیں جبکہ ان کے جسم مٹی سے اٹے ہوئے ہوتے اور ان پر مکھیاں بیٹھی رہتی ہیں۔ بچے انفیکشنز سے ہلاک ہو رہے ہیں۔‘

داعش کو شکست دینے کے لیے امریکی قیادت میں بنائے گئے اتحاد نے خبردار کیا ہے کہ ان کیمپوں میں جہادیوں کی ایک نئی نسل تیار ہو رہی ہے جن میں داعش کے جنگجوؤں کے خاندان شامل ہیں۔

عالمی اتحاد کے نائب کمانڈرمیجرجنرل ایلکسس گرنکویچ نے کہا ہے کہ شام کے کیمپوں میں انتہاپسندی کا امکان فوجی کارروائیوں سے ہٹ کر جہادی گروپ کے خلاف جاری لڑائی میں ’سب سے بڑا طویل المدتی سٹریٹیجک خطرہ ہے۔‘

میجرجنرل ایلکسس گرنکویچ نے مزید کہا: ’ہم ایسی کہانیاں سن رہے ہیں کہ بعض خواتین اور ان کے بچے جنہوں نے ہاتھیار ڈالے تھے، ان میں ایسی خواتین بھی شامل ہیں جو داعشی نظریات پر سختی سے یقین رکھتی ہیں۔ ہم نے کیمپوں میں کام کرنے والے اپنے ساتھیوں کی رپورٹس یقیناً دیکھی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ کیمپوں میں رہنے والوں میں داعش کے نظریات کے اچھے خاصے اثرات موجود ہیں۔‘

حالیہ ہفتوں میں کیمپ میں کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جن سے حکام میں تشویش پیدا ہوئی ہے۔ مبینہ طور پر کیمپ کے مکینوں کی جاجنب سے جاری کی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک کیمپ پر داعش کا سیاہ پرچم لہرا رہا ہے جبکہ خواتین اور بچے داعش کے نعرے لگا رہے ہیں۔ کیمپ کی نگرانی پر مامور محافظوں پر اکثر حملہ کیا جاتا ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا