بنکاک کی ٹیکسیوں کے کیمرے اور ٹُک ٹُک

یہاں ٹیکسیوں کے کام کرنے کا طریقہ کافی دلچسپ ہے۔ ہر ٹیکسی میں ایک کیمرہ لگا ہوتا ہے جس کا رخ گاڑی میں پچھلی نشست پر بیٹھے مسافروں کی طرف ہوتا ہے۔

ٹُک ٹُک ہمارے رکشے کی طرح ہی ایک سواری ہے لیکن ان سے زیادہ آرام دہ اور تیز رفتار (فائل تصویر: اے ایف پی)

تھائی لینڈ کا دارالحکومت بنکاک پوری دنیا میں خریداری کے لیے مشہور ہے۔ جن ممالک کی کرنسی مضبوط ہے ان کے لیے تو تھائی لینڈ بہت سستا ہے۔ ہم جیسوں کے لیے پھر بھی تھوڑا مہنگا ہے۔ جب سے پاکستان ’نیا پاکستان‘ بنا ہے تب سے کچھ اور بھی مہنگا لگنے لگا ہے۔

پاکستان اور انڈیا سے جب لوگ بنکاک آتے ہیں تو وہ سکھمویت کے علاقے میں رہائش اختیار کرتے ہیں، جو خریداری کے تمام اہم مراکز کے قریب ہے۔ یہاں سفر کرنے کے لیے سب وے، بس، ٹُک ٹُک اور ٹیکسی سروس دستیاب ہے۔ سب وے اور بس سستی ہیں۔ ٹُک ٹُک اور ٹیکسی قدرے مہنگی ہیں۔ ٹیکسی میٹر کے مطابق چلتی ہے جس کی کم از کم قیمت 35 بھات ہے جو پاکستانی روپے میں تقریباً دو سو روپے بنتے ہیں۔ یہاں اوبر کی طرز پر بھی ٹیکسیاں موجود ہیں لیکن وہ گریب نامی ایک ایپ کے ذریعے بلائی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ موٹر سائیکل ٹیکسی بھی موجود ہوتی ہے جو اپنے آپ میں ایک الگ تجربہ ہے۔

یہاں ٹیکسیوں کے کام کرنے کا طریقہ کافی دلچسپ ہے۔ ہر ٹیکسی میں ایک کیمرہ لگا ہوتا ہے جس کا رخ گاڑی میں پچھلی نشست پر بیٹھے مسافروں کی طرف ہوتا ہے۔ اسی کیمرے کے نیچے ایک میٹر لگا ہوتا ہے جس پر آپ اپنا کرایہ دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ڈرائیور سفر کے لیے ہائی وے استعمال کرے گا تو اس کے پیسے مسافر کو اضافی ادا کرنے ہوں گے۔ ڈرائیور ہائی وے کے استعمال کی صورت میں مسافر سے پہلے اجازت لے گا۔ فرنٹ سیٹ کے سامنے ایک تختی پر ڈرائیور کی تصویر اور اس کے کوائف درج ہوتے ہیں۔ ڈرائیور کے لیے لازمی ہے کہ وہ ان کوائف کو ظاہر رکھے تاکہ اس کی گاڑی میں سوار ہونے والے مسافر اس کے بارے میں جان سکیں۔ مسافر کسی بھی حادثے کی صورت میں ان کوائف کا استعمال کرکے متعلقہ محکمے میں ڈرائیور کی شکایت درج کروا سکتے ہیں۔

پاکستان میں پچھلے کچھ سالوں میں ٹیکسیوں کا استعمال بڑھا ہے۔ ان ٹیکسیوں سے لوگوں کو بہت آسانی ہوئی ہے لیکن کچھ نا خوشگوار واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ ان ٹیکسیوں میں بھی ایسے ہی ڈرائیور کے کوائف ظاہر ہونے چاہییں۔ اس کے علاوہ کیمرہ بھی لگا ہونا چاہیے تاکہ مسافر اور ڈرائیور دونوں محفوظ رہ سکیں۔

بائیک ٹیکسی میں ڈرائیور کے کوائف اس کی جیکٹ کی پچھلی طرف درج ہوتے ہیں تاکہ اس کے پیچھے بیٹھی سواری آسانی کے ساتھ تمام تفصیلات دیکھ سکے۔ ڈرائیور کے پاس دو ہیلمٹ ہوتے ہیں۔ ایک وہ خود پہن لیتا ہے اور دوسرا مسافر کو دے دیتا ہے۔ بائیک ٹیکسی سستی پڑتی ہے۔ بہت سے لوگ بنکاک کو زیادہ قریب سے دیکھنے کے لیے بھی اس آپشن کا استعمال کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اکثر ٹیکسی ڈرائیور بالخصوص سیاحتی مقامات پر ٹیکسی کا میٹر بند کر دیتے ہیں اور سفر کے منہ مانگے دام مانگتے ہیں۔ ایسی جگہوں پر مجھے پاکستان یاد آ جاتا ہے۔ یہاں بھی رکشے والے ذرا سے سفر کے لیے تین سو سے پانچ سو روپے مانگ لیتے ہیں، بے شک گیس 50 روپے کی بھی نہ لگ رہی ہو۔

بنکاک سے ساڑھے آٹھ سو کلومیٹر دور پھوکٹ نامی جزیرہ ہے جو سیاحوں کا پسندیدہ ترین مقام ہے۔ پھوکٹ اپنے صاف پانی کے جزیروں کے لیے مشہور ہیں۔ وہاں کوئی بھی ٹیکسی میٹر کے ساتھ نہیں چلتی۔ عام طور پر ٹیکسی ڈرائیور نے اپنا میٹر کسی ٹوپی یا کپڑے سے ڈھانپا ہوتا ہے۔ پھوکٹ میں ٹیکسی لینے سے پہلے مسافر کو اپنی ہمت کے مطابق کرایہ کم کروانا پڑتا ہے۔ بنکاک میں ایسا صرف ٹُک ٹُک لیتے ہوئے کرنا ہوتا ہے جو ہمارے رکشے کی طرح ہی ایک سواری ہے لیکن ان سے زیادہ آرام دہ اور تیز رفتار۔ یہ ٹُک ٹُک زیادہ تر ایسے مقامات پر ملتے ہیں جہاں سیاح زیادہ آتے جاتے ہیں۔ آپ کوئی بھی ٹُک ٹُک روکیں، اپنی منزل بتائیں، کرایہ آدھے سے بھی زیادہ کم کروائیں اور گھومنے نکل جائیں۔ یہ ٹُک ٹُک اتنے مشہور ہیں کہ سیاح ٹی شرٹ پر ان کی تصویر بنا کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔

2018 میں تقریباً تین کروڑ 82 لاکھ 70 ہزار سیاحوں نے بنکاک کا رخ کیا۔ اس سال یہ نمبر چار کروڑ سے بھی اوپر جانے کی امید کی جا رہی ہے۔ بنکاک میں سیاحت کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کے پیچھے جہاں بہت سے عوامل ہیں وہیں پبلک ٹرانسپورٹ کا بھی ایک بہت اہم ہاتھ ہے۔

کسی بھی شہر کو جدید بنانے کے لیے سب سے پہلے اس کی ٹرانسپورٹ پر کام کرنا ہوتا ہے۔ تیز رفتار اور سستے نقل و حمل کے ذرائع ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ ہمارے ہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی ویسی اہمیت نہیں جیسے باہر کے ممالک میں ہے۔ یہاں جس کے پاس گاڑی نہیں ہے اس کی کوئی زندگی نہیں ہے۔ چھوٹے شہر تو دور بڑے شہروں میں ایک تو پبلک ٹرانسپورٹ کا فقدان ہے، دوسرا اسے نیچ بھی سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں ان دونوں محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان میں بھی پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام ویسا ہی جدید بنایا جا سکے جیسا دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں ہے۔ یہ نہ صرف ہمارا نقل و حمل آسان بنائے گا بلکہ سیاحوں کے لیے بھی پاکستان کو ایک اچھے آپشن کی فہرست میں لائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ