مودی کشمیر کی’عظمت رفتہ‘ بحال کرنے کے لیے پرعزم

بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت کی جانب سے بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی’نئی سوچ‘ کا حصہ ہے جس سے شورش زدہ علاقے کی’عظمت رفتہ‘ بحال ہوگی۔

نریندر مودی نے بھارت کے یوم آزادی کے موقعے پر   لال قلعے کی دیواروں کی دوسری جانب سے  (اے ایف پی)خطاب کیا

بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت کی جانب سے بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی’نئی سوچ‘ کا حصہ ہے جس سے شورش زدہ علاقے کی’عظمت رفتہ‘ بحال ہوگی۔

انھوں نے بھارتی یوم آزادی کے موقعے پر دارالحکومت نئی دہلی میں لال قلعے کی دیواروں کی دوسری جانب سے خطاب کیا۔ انھوں نے زعفرانی رنگ کی پگڑی باندھ رکھی تھی  جس کا ایک حصہ ہوا میں لہراتا رہا۔ انھوں نے کشمیر میں اس کرفیو اور مواصلاتی نظام کی مکمل بندش کا کوئی ذکر نہیں کیا جس کی وجہ سے کشمیر 11 دن سے گھٹنوں کے بل ہے۔

بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو بھی جواب نہیں دیا جنہوں نے ایک روز پہلے یوم آزادی کے موقعے پر اپنے خطاب میں کشمیر کے معاملے پر بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جبکہ جمعرات کو اپنے ٹوئٹر پیغام میں بھی انھوں نے کہا کہ دنیا بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بوسنیا کے علاقے سریبرے نیسا جیسا قتل عام اور مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے کارروائی دیکھ سکتی ہے۔

نریندرمودی نے خطاب سننے والوں کو بتایا کہ ملکی آئین کے آرٹیکل 370، جس کے تحت کشمیر کو اپنے طور پر قانون سازی کا اختیار حاصل تھا اور بھارت کے دوسرے علاقوں کے لوگوں کو وہاں رہائش اختیار کرنے کی اجازت نہیں تھی، کے خاتمے سے ’آنے والے برسوں میں‘ کشمیر، بھارت کے پانچ کھرب ڈالر کی معیشت بننے کے عمل میں اپنا حصہ ڈالے گا۔

انھوں نے کہا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی وجہ علیحدگی پسندی کو ہوا ملی، بدعنوانی کی حوصلہ افزائی ہوئی، خواتین اور غیرمسلموں سے امتیاز برتا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سابق انتظام کی وجہ سے جموں، کشمیر اور لداخ میں بدعنوانی، اقربا پروری کو فروغ ملا۔ خواتین، بچوں، دلتوں اورقبائلی برادریوں کے حقوق کے معاملے میں ناانصافی کی گئی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’آج ہر بھارتی شہری فخر سے کہہ سکتا ہے ’ایک قوم، ایک آئین۔‘

کشمیر کے مقامی افراد اور سیاستدانوں کو خوف ہے کہ علاقے کی ریاستی حیثیت اور خصوصی تحفظ کے خاتمے کے یک طرفہ اقدام کا مقصد آبادی کا تناسب تبدیل کرتے ہوئے حسین اور زرخیز وادی میں ہندو آبادکاروں کو لانا ہے۔ ناقدین نے اس عمل کو فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاروں کو بسانے کی اسرائیلی حکومت کی پالیسی سے تشبیہہ دی ہے۔

بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے حزب اختلاف پر الزام لگایا ہے کہ وہ اپنی تشویش کا اظہار کر کے’سیاست‘ کر رہی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بھارت سابق حکومتوں کے سربراہوں نے کشمیر کے معاملے میں کوئی قدم اٹھانے کی جرات نہیں کی کیونکہ انہیں خطرہ تھا ان کا اپنا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا۔

نریندرمودی نے کہا: ’مجھے اپنے سیاسی مستقبل کی پرواہ نہیں ہے۔ میرے لیے ملک کا مستقبل پہلے ہے۔‘

اپنے 90 منٹ کے خطاب کے باقی حصے میں نریندرمودی نے مغل دور کے قلعے کو پس منظر کے طور پر استعمال کرتے ہوئے بھارت کی مسلح افواج کے لیے اہم اقدام کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی طرز پر بھارت میں بھی چیف آف ڈیفنس سٹاف کا عہدہ تخلیق کیا جائے گا۔

چیف آف ڈیفنس سٹاف کے عہدے پر بھارتی فوج، بحریہ یا فضائیہ سے فور سٹار جنرل کو تعینات کیا جائے گا۔ اس طرح اس عہدے پر فائز ایک ہی فرد بھارتی فوج کی تینوں شاخوں سے رابطہ کرے گا جبکہ وزیراعظم بھی صرف اس سے رابطہ کریں گے۔

اس طرح کے اقدام کی سفارش 1999 میں ایک حکومتی پینل نے کی تھی۔ اس سے پہلے یہ سمجھا گیا تھا کہ بھارتی فوجی ناکامیوں کی وجہ سے پاکستانی فورسز کو کارگل کے قریب ہمالیہ کے علاقے پر قبضہ کرنے کا موقع ملا جس کے بعد 11 ہفتے تک لڑائی ہوئی جس کے بڑی جنگ میں تبدیل ہونے کا خطرہ تھا۔

نریندرمودی نے کہا کہ چیف آف ڈیفنس سٹاف ’بھارتی فورسز کے درمیان رابطے کو مزید بہتر بنائیں گے۔‘

بھارتی وزیراعظم کا خطاب، جو برطانیہ سے آزادی کے 72 برس مکمل ہونے پر کیا جا رہا تھا اوراس موقعے پر ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے، سننے والے ان کے کشمیر کے حوالے سے اقدام کے حامی دکھائی دیے جس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

نئی دہلی کے ایک تاجر امرجیت سنگھ نے کہا: ’آرتیکل 370 بہت پہلے ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن کبھی نہ ہونے سے دیر کے ساتھ ہونا بہتر ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ اچھی بات ہے۔ اس کا سب کو فائدہ ہوگا کیونکہ ہر عام آدمی کشمیر میں کام اور کاروبار شروع کر سکے گا۔‘

کشمیر میں انٹرنیٹ، موبائل اور ٹیلی فون کا نظام مکمل طور پر بند ہونے کا مطلب ہے کہ نریندر مودی کی تقریر پر وہاں کے لوگوں کا بہت کم ردعمل سامنے آیا ہے۔ بھارتی حکومت نے بالآخر تسلیم کر لیا ہے کہ منگل کو کشمیر میں کچھ مظاہرے اور جھڑپیں ہوئیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے تحمل سے کام لیا ہے۔

بھارتی حکومت نے بدھ کو کہا کہ ہندوؤں کی اکثریت والے جموں کے علاقے میں پابندیوں میں نرمی کر دی گئی ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا