زمین سے ملتے جلتے سیاروں کی صحیح تعداد پتہ چل گئی

نئی تحقیق میں ماہرین فلکیات نے سورج جیسے ستاروں کے مدار میں زمین سے ملتے جلتے سیاروں کی تعداد کا بہترین اندازہ لگایا گیا ہے۔

سائنس دانوں نے ہماری کائنات میں زمین سے ملتے جلتے سیاروں کی تعداد معلوم کر لی ہے۔

ناسا کی کیپلر سپیس ٹیلی سکوپ کے مدد سے ہونے والی اس نئی تحقیق میں سورج جیسے ستاروں کے مدار میں زمین سے ملتے جلتے سیاروں کی تعداد کا بہترین اندازہ لگایا گیا ہے۔

یہ تحقیق زندگی کے ممکنہ آثار رکھنے والے سیاروں کو بہتر سمجھنے میں مصروف ماہرین فلکیات کے لیے معاون ہو گی۔

دس سال سے آسمان پر نظر رکھے ہوئی کیپلر سپیس ٹیلی سکوپ کی مدد سے پتہ چلا ہے کہ ہزاروں سیارے ہمارے نظام شمسی کے باہر اپنے اپنے سورجوں کے گرد گھوم رہے ہیں۔

تاہم سائنس دان یہ جاننے میں دلچسپی رکھتےہیں کہ ان سیاروں میں سے کتنے اپنے ستارے کے اتنے قریب ہیں کہ زندگی کے لیے ضروری توانائی فراہم کر سکیں۔

پین سٹیٹ یونیورسٹی میں علم فلکیات اور ایسٹرو فزیکس کے پروفیسر اور ریسرچ ٹیم کے رہنماؤں میں شامل ایرک بی فورڈ کہتے ہیں ’کیپلر نے مختلف سائزوں، بناوٹ اور مدار والے سیاروں کی وسیع تعداد معلوم کی ہے‘۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہمیں اس سے سیاروں کے بننے کے عمل کو بہتر انداز میں سمجھنے اور ان میں سے زندگی کے ممکنہ آثار رکھنے والے سیاروں کی تلاش کے لیے مشنز کی منصوبہ بندی میں مدد ملے گی۔تاہم اپنے ستاروں کے قریب ایک مخصوص حجم اور مدار میں گھومنے والے ایکزو پلینٹس کو گننا آسان ہے بانسبت ان چھوٹے سیاروں کے جو اپنے ستارے سے کہیں زیادہ دور ہیں’۔

سیاروں کی تلاش اور ریسرچ پروگرام کے لیے سائنس دانوں نے ایک نیا طریقہ اپنایا تھا۔

انہوں نےایک ماڈل بنایا جس میں نئے اور تصوراتی سیاروں اور ستاروں کی کائناتیں تخلیق کرنے کے بعد یہ پتہ چلایا گیا کہ کیپلر ٹیلی سکوپ نے ان میں کتنے سیارے درست تلاش کیے اور کتنے تلاش ہونے سے رہ گئے۔

پین سٹیٹ کے گریجویٹ طالب علم اور مکالے کے پہلے مصنف ڈینلے سو کہتے ہیں: ہم نے اپنی سیمولیشنز کو تیار کرنے کے لیے کیپلر کے دریافت کردہ سیاروں کے فائنل کیٹلاگ اور یورپین سپیس ایجنسی کے خلائی جہاز ’گایا‘ سے حاصل ہونے والی ستاروں کی خصوصیات کو استعمال کیا۔

نئی تحقیق سامنے آنے کے بعد اب سائنس دانوں کو کائنات میں زمین سے ملتے جلتے سیارے تلاش کرنے میں مدد ملے گی۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق