ہیر کا تو پتہ نہیں لیکن فلم بین بالکل نہیں مانیں گے

’ہیرمان جا‘ ایک کمزور فلم ہے اور اس کی کمزوری کی سب سے بڑی وجہ کہانی اور مکالمے ہیں۔

اس فلم کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے درست انداز میں لکھا ہی نہیں گیا

عید الاضحٰی پر ریلیز ہونے والی تیسری پاکستانی فلم ’ہیر مان جا‘ کم ازکم اس لحاظ سے منفرد ہے کہ ’سٹار پاور‘ کے بجائے اس کی بطور رومینٹک کامیڈی کہہ کر تشہیر کی جاتی رہی۔ تاہم فلم دیکھ کر معلوم ہوا کہ اس میں رومانس نام کی تو کوئی چیز ہی نہیں، البتہ مزاح کے نام پر چند پھکّڑبازی کے جملے ضرورتھے۔

فلم کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے درست انداز میں لکھا ہی نہیں گیا۔ کہانی میں جگہ جگہ جھول ہیں اور مکالمے پھیکے اور بے جان۔ ایسا کمزورسکرپٹ ہو تو فلم کو نہ تو دنیا کا بہترین ہدایت کار بچا سکتا ہے اور نہ ہی اداکاروں کی سرتوڑ کوشش۔

فلم کی کہانی بہت گنجلک ہے، کئی مقامات پر کیا، کیوں اور کیسے کے بے شمار سوالات ذہن میں دوڑتے رہتے ہیں اور فلم ختم ہونے کے بعد بھی ان کا کوئی جواب نہیں ملتا۔

کبیر (علی رحمان) ایک بہت ہی کامیاب آرکیٹیکٹ ہے اور اس کی زندگی بہت مزے سےگزر رہی ہوتی ہے کہ اچانک ایک دن اس کا ڈاکٹر اسے بتاتا ہے کہ اسے پھیپڑوں کا سرطان ہے اور اس کے بچنے کی امید صرف 20 فیصد ہے۔

علی مایوس ہوکراپنی غلطی کی معافی کے لیے ہیر(حریم فاروق) کے پاس پہنچتا ہے تو وہاں اس کی شادی ہورہی ہوتی ہے۔ حالات تیزی سے بدلتے ہیں اور کبیر، ہیر کو اس کے جلّاد کزن سے بچانے کے لیے بھگا کر لےجاتا ہے۔

یہاں سے لے کر انٹرول تک کہانی میں کچھ نئے کردار ضرور آتے ہیں مگر کہانی وہیں کی وہیں گھومتی رہتی ہے۔ تجسّس کے نام پر ایک گھنٹہ مکمل ضائع کیا جاتا ہے، جس میں سوائے سستے بلکہ بھونڈے طریقے سے مختلف مصنوعات کی تشہیر کی جاتی ہے۔

مجھے یہ ماننے میں کوئی تامّل نہیں کہ پاکستانی فلموں میں مختلف اشیا کی تشہیر فلم کے بجٹ کے لیے بہت ضروری ہے، تاہم اس فلم کو دیکھ کر مجھے ’کراچی سے لاہور‘ اور ’دیکھ مگر پیار سے‘ یاد آ گئیں جن میں ’پروڈکٹ پلیسمنٹ‘ کے نام پر پورے پورے اشتہار بھر دیے گئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب فلم میں مکالمے کچھ یوں ہوں کہ اگر وہ ساگ تم نے بنایا تھا تو اس کی ترکیب بتاؤ۔ جواب میں کہا گیا کہ میتھی پالک کے ساتھ میزان گھی استعمال کیا جائے۔ یا پھر میکڈونلڈز پہنچ کر میکڈونلڈزکی ایپ استعمال کرنا اور دکھانا بھی۔ اسے تشہیر کرنا نہیں بلکہ ٹھونسنا کہا جائے تو بہتر ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر پیسے خرچ کرکے لوگ اشتہار کیوں دیکھیں؟

انٹرول کی بعد فلم کی کہانی کچھ آگے تو بڑھتی ہے مگر نہایت سست روی سے۔ فلم کے دوران بہت سے چیزوں کا بالکل خیال نہیں رکھا گیا مثلا، اگر ہیر کو اپنا پاسپورٹ چاہیے تھا تو وہ کہاں سے آئے گا، نیا بنوایا جا رہا ہے یا گھر میں پڑا تھا جو واپس لانا ہے، اگرنیا بنوایا جارہا ہے تو کوئی کسی کا پاسپورٹ کیسے وصول کرسکتا ہے۔ پٹواری کے چکر لگائے بغیر ہی جائیداد کیسے ہیر کے نام کی جا سکتی ہے۔

اسی طرح فلم میں بہت کچھ ہوتا ہے مگر کیوں ہوتا ہے یہ سمجھ میں نہیں آتا۔ ہدایت کار اظفرجعفری نے کمزور اور بےجان سکرپٹ میں جان ڈالنے کی بہت کوشش کی اور وہ نظر بھی آرہی ہے مگر وہ اسے بچا نہیں سکے۔

اگر اداکاری کی بات کی جائے تو حریم فاروق اور علی رحمان نے اپنے طور پر فلم کو دلچسپ بنانے کی بھرپور کوشش کی مگر فلم میں ان کے پاس اس کی گنجائش ہی نہیں تھی۔

فلم کے وِلن وجدان (فیضان شیخ) نے ایک خطرناک انسان بننے کی بہت کوشش کی، مگراس میں ناکام رہے۔ ایک کامیڈی فلم کے ولن کے روپ میں وہ کچھ جچے نہیں۔ بہتر ہوتا کہ ڈاکٹر اور دیگر کرداروں کو جہاں مزاحیہ بنایا گیا تھا وہیں وِلن کے کردار میں بھی کچھ رنگ بھر دیےجاتے۔

آمنہ شیخ کا کردار کیوں تھا، اگرتھا تو وہ بطور صبا ایک گینگسٹر تھی لیکن کلائمکس میں اس کا فائدہ کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ آمنہ شیخ ایک اچھی اداکارہ ہیں اور ’کیک‘ میں انہوں نے اس کا ثبوت بھی دیا، اگر وہ ایک مزاحیہ کردار ادا کررہی ہیں تو کم ازکم اس کردارمیں کچھ جان تو ہو۔

سلیم معراج اور علی کاظمی جیسے منجھے ہوئے بہترین اداکاروں کو دو، تین سین کروا کر ضائع کیا گیا۔ کم از کم ان کی مدد سے کلائمکس بہتر کیا جاسکتا تھا۔

فلم میں کبیر یعنی علی رحمان کے کزن کا کردار موجزحسن نے ادا کیا جو ایک بہت ہی روایتی فلمی مسخرے کا کردار ہے لیکن وہ بھی اکّا دکّا سین کے علاوہ کچھ نہ زیادہ نہ کرسکے۔

پھر فلم میں ان کے بھی ایک کزن لندن سے آتے ہیں جس کی بھی کوئی تک سمجھ نہیں آئی کہ وہ ساتھ ساتھ کیوں پھر رہا ہے۔ رمضان عرف رمزی کا کردار شمائل خٹک نے ادا کیا، جو فلمی دنیا میں نووارد ہیں۔ یہ دونوں کردار چند مزاحیہ جملوں کے علاوہ فلم میں کچھ نہیں کرتے۔

فلم کی موسیقی میں سوائے ’اڈی مار کے‘ کچھ بھی قابلِ ذکر نہیں۔ یہ گانا ممکنہ طور پر شادی بیاہ کے موقع پر کام آئے گا، اس میں علی رحمان کے علاوہ زارا شیخ ہیں جو طویل عرصے کے بعد بڑی سکرین پر نظر آئیں۔

فلم اگرچہ فلمائی اچھی گئی ہے اوراسلام آباد کے کئی مقامات سکرین پر تازگی اور خوبصورتی بکھیرتے ہیں، تاہم مجھے کئی مقامات پر ایسا محسوس ہوا جیسے میں فلم نہیں کوئی تھیٹر دیکھ رہا ہوں۔

غرض ’ہیرمان جا‘ ایک کمزور فلم ہے اور اس کی وجہ نہ اس کے اداکار ہیں اور نہ ہی ہدایت کار۔ اس کی کمزوری کی سب سے بڑی وجہ اس کی کہانی اور مکالمے ہیں اور جو چیز کاغذ پر کمزور ہو وہ بڑے پردے پر اچھی کیسے ہوسکتی ہے؟

Star Rating 2.0 / 5.0

زیادہ پڑھی جانے والی فلم