تعلیم ہمارے بچوں کی زندگیوں سے زیادہ اہم نہیں: کشمیری والد

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پیر سے تعلیمی ادارے کھلنے کے باوجود والدین بچوں کو گھروں سے باہر نہیں نکلنے دے رہے۔

والدین کو خدشہ ہےکہ ان کے بچے مسلح سکیورٹی اہلکاروں اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں پھنس جائیں گے(اے ایف پی)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حکام کی جانب سے پیر کو تعلیمی ادارے کھولنے کے حکم کے باوجود والدین بچوں کو گھروں سے باہر نہیں نکلنے دے رہے۔

والدین کو خدشہ ہے ان کے بچے مسلح سکیورٹی اہلکاروں اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں پھنس جائیں گے۔

حکام نے پانچ اگست کو کشمیر کا خصوصی درجہ ختم ہونے کے بعد سکول اور کالج بند کر دیے تھے۔

کشمیریوں نے خطے میں کشیدہ صورتحال اور مظاہرین اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان جاری جھڑپوں کے باوجود تعلیمی ادارے کھولنے پر حکام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

اس کے علاوہ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون رابطوں پر پابندی کی وجہ سے والدین کو ڈر ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر سکول انتظامیہ سے رابطہ نہیں کر پائیں گے۔

سری نگری کے ٹنڈیل بسکو سکول میں نرسری جماعت کے ایک طالب علم کے والد شوکت نبی نے سوال کیا ’اگر علاقے میں حالات واقعی اس حد تک نارمل ہو گئے ہیں کہ سکول کھولنے پڑے ہیں تو حکام عوامی نقل و حمل اور ٹیلی فون رابطوں پر پابندی کیوں ختم نہیں کرتے؟‘

انہوں نے مزید کہا: ’بچے بہت چھوٹے ہیں کہ موجودہ صورتحال سمجھ سکیں۔۔۔ اگر ہم انہیں سکول بھیجیں گے تو وہ چلے جائیں گے، لیکن ہمیں ان کی فکر ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سری نگر کے پرانے اور مشہور مشنری تعلیمی اداروں میں شامل برن ہال سکول کے دروازے پر پچھلے دو ہفتوں سے  تالے پڑے تھے۔ دروزے پر موجود ایک چوکیدار نے دی انڈپینڈٹ کو بتایا کہ آج کوئی بچہ پڑھنے نہیں آیا اور استادوں کی بھی محدود تعداد آئی ہے۔

ساگر کے نام سے خود کو متعارف کرانے والے چوکیدار نے مزید کہا: ’کشمیر میں موجودہ صورتحال کے پیش نظر کون اپنے چھوٹے بچے کو سکول بھیجے گا؟‘

کشمیر میں سکول ایجوکیشن کے ڈائریکٹر محمد یونس مالک نے بتایا کہ سری نگر کے 196 پرائمری سکولوں میں سے 166 کھلے ہیں، لیکن ان میں سے 72 سکولوں میں طلبہ کی حاضری محدود تھی۔

طارق عزیز، جن کا بیٹا سری نگر کے ایک نجی سکول میں پڑھتا ہے، نے کہا کہ بچوں کو سکول نہ بھیجنا بھی ایک طرح کا احتجاج ہے۔

انہوں نے کہا: ’میں چاہتا ہوں کہ میرے بیٹے کو پتہ چلے کہ بھارت ہماری زمین ہڑپ کرنا چاہتا ہے اور ہمارا مستقبل خطرے میں ہے۔ میں اسے مستقبل میں مقابلے کے لیے تیار کرنا چاہتا ہوں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’تعلیم ہمارے بچوں کی زندگیوں سے زیادہ اہم نہیں۔ ہم ماضی میں بھی کئی مہینوں تک سکولوں پر تالے دیکھ چکے ہیں اور آج بھی اگر ایسا ہوتا ہے تو ہمارے اساتذہ کمیونٹی سکول کھول لیں گے۔‘

حکام نے پیر کو سرکاری ملازمین کو بھی حکم دیا تھا کہ وہ دفاتر آئیں، لیکن یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کتنے ملازمین نے احکامات پر عمل کیا۔ حکومتی ترجمان سہریش اصغر نے دفاتر آنے والوں کی تعداد کو ’حوصلہ افزا‘ قرار دیا۔

انجینئر آفتاب احمد نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’عوامی نقل و حمل پر سخت پابندیوں کی وجہ سے دفتر پہنچنا مشکل ہے، لیکن ہمیں اپنی نوکریاں بچانے کے لیے خطرہ اٹھانا پڑے گا۔‘

پورے کشمیر میں فی الوقت اکثر دکانیں اور کاروبار بند ہیں اور سڑکیں سنسان ہیں۔ تاہم پورے کشمیر میں بعض مقامات پر محدود تعداد میں مظاہرین سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری سے تصادم میں نظر آئے۔

کشمیر کی صورتحال پر میڈیا کو بریفنگ دینے والے ڈپٹی انسپکٹر جنرل وی کے برڈی نے کہا پورے خطے میں کہیں بھی پرتشدد واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا: ’کچھ مقامات پر پتھراؤ کے معمولی واقعات پیش آئے جنہیں مناسب طریقے سے حل کیا گیا اور مظاہرین منتشر ہو گئے۔‘

ان کے مطابق حکام حالات کا جائزہ لے رہے ہیں جو ’آہستہ آہستہ معمول پر آ رہے ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا