فارورڈ، مارچ!

اگلے تین سالوں میں اس فیصلے نے خود کو درست ثابت کر دکھایا اور اگلے چار سالوں میں وزیر اعظم عمران خان نے خود کو بہترین فیصلہ ساز ثابت کر دکھایا تو عین ممکن ہے کہ اگلی ایکسٹینشن عوام عمران خان کو 2023 میں دے دیں۔

یہ اہم ترین اور سب سے بڑا فیصلہ پاکستان کے لیے کس قدر مثبت اور فائدہ مند ثابت ہوتا ہے یہ بھی اب وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ’ٹیم پاکستان‘ بن کر ہی ثابت کرنا ہے۔

فیصلہ تو ہو گیا ہے۔ فیصلہ تو پہلے ہی ہو چکا تھا۔ دورہ امریکہ سے بھی قبل۔ جب بھارت نے ابھی جموں و کشمیر کی حیثیت کے بارے میں 5 اگست کا گھناونا مکار قدم نہیں اٹھایا تھا۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اب 2022 تک عہدے پر فائز رہیں گے۔ یہ توسیع آرمی چیف کو عمران خان نے وہ صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے دی جو اختیار انہیں پاکستان کے عوام نے 2023 تک وزیراعظم منتخب کر کے دیا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے ہم صحافی جب بھی وزیراعظم سے ملاقات کرتے فوجی سربراہ کو ایکسٹینشن دینے یا نہ دینے کے متعلق وزیراعظم سے سوال ضرور کرتے اور عمران خان اس پر ایک ہی مختصر نپا تُلا جواب دیتے کہ جب وقت آئے گا تب وہ اس بارے میں سوچیں گے اور فیصلہ کریں گے۔

لیکن فیصلہ تو پہلے ہی ہو چکا تھا۔ شاید گذشتہ اگست میں ہی۔ شاید اس سے بھی پہلے ہی ایک سوچ کہیں پائی جاتی تھی۔ کچھ فیصلوں کے لیے حالات و واقعات سوچ پیدا کرتے ہیں اورکچھ فیصلوں کے لیے سوچ حالات و واقعات کو جنم دیتی ہے۔ اس فیصلے کے بظاہر ممکن نظر آتا ہے کہ دونوں عوامل پسِ پشت ہوں۔ لیکن بہرحال فیصلہ تو اب ہو چکا ہے جو واپس تو نہیں لیا جا سکتا۔

ملک کی اندرونی اور بیرونی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک چھوٹا طبقہ ہوگا جو اس فیصلے پر اعتراض کرے گا یا سوالات اٹھائے گا۔ مسلم لیگ ن کچھ نہ کہہ کر بھی عمران خان کے اس فیصلے کو بہ رضا و رغبت نہ سہی لیکن قبول کر چکی ہے۔ مریم نواز پابند سلاسل ہیں۔ اگر زنداں سے باہر ہوتیں تو شاید لب کشائی کر سکتیں لیکن کھل کر تنقید شاید ان کے لیے بھی موجودہ حالات میں ممکن نہ ہوتی۔ ہو سکتا ہے جیل میں کوئی ملاقاتی ان کے حوالے سے بہ صورتِ پیام کوئی بیان لا سکے۔ نواز شریف کو تقریباً تین ماہ ہوگئے دوبارہ قید میں اور اس دوران ان کی سوچ بذریعہ مریم نواز ہی عوام تک پہنچتی رہی جو ذریعہ اب منقطع ہے۔ شہباز شریف سے اس توسیع کی مخالفت یا اعتراض کی توقع رکھنا عبث ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پیپلز پارٹی چونکہ خود اسی رہ گزر میں ’سزا وارگناہ‘ ہے لہذا وہاں سے بھی کچھ خاص آواز اٹھتی نظر نہ آئے گی۔ بلاول بھٹو زرداری سے البتہ پیپلز پارٹی کا جیالا نظریاتی کارکن کسی بیان کا منتظر ضرور رہے گا لیکن بلاول بھٹو چونکہ خود گلگت بلتستان کے دورے پر ہیں اور کشمیر کے لیے سرگرم ہیں لہذا کشمیر کی صورتحال اور مشرقی و مغربی بارڈر کی پیچیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے براہ راست یا بلاواسطہ تبصرے سے شاید گریز ہی کریں لیکن ممکن ہے کہ پارٹی ورکر کی توقعات کے دباؤ میں کچھ نہ کچھ قیاس آرائی کر جائیں جس میں بظاہر نگاہیں عمران خان پر ہوں مگر نشانہ کہیں اور۔

مولانا فضل الرحمان نے بھی اس توسیع پر کچھ خاص ردعمل نہیں دیا اور اس کی بڑی وجہ مولانا صاحب کو حاصل ادراک بھی ہو سکتا ہے کہ اس محاذ پر اب وہ اکیلے ہی کھڑے ہیں اور جو پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو نہ کوئی تیر انداز ان کی پشت سنبھالے ہے اور نہ کوئی ہلہ شیری دکھانے کو تیار۔ بلکہ پیچھے مڑ کر دیکھیں گے تو خود پتھر کے ہو جائیں گے۔

علاقائی اور لسانی جماعتوں نے اعتراضات اور سوالات تو اٹھائے ہیں مگر موجودہ صورتحال میں ان کی آواز نقارخانے میں طوطی کی مانند ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے کارکن البتہ سوشل میڈیا کا محاذ خوب گرم اور سرگرم رکھیں گے۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر عمران خان کے ماضی کے بیانات کی ویڈیوز، سکرین شاٹس اور میمز نکالیں گے لیکن اب عمران خان کو ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

عمران خان خوب جان گئے ہیں کہ سیاست اور اقتدار ایسا بدمست ہاتھی ہے جس کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔۔۔ اپوزیشن کے دور کی اخلاقیات اقتدار میں آتے ہی نظریہ ضرورت کے تحت واہیات بن جاتی ہیں۔ ن لیگ کے دور کی برائی آج کے نئے پاکستان کی اچھائی میں بدل جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور کی خرابی نئی تبدیلی کے سانچے میں ڈھل کر خوبی کی طرح ابھر کر سامنے آتی ہے۔ بائیں بازو کی سیاست اور صحافت کرنے والے بچے کھچے گنتی کے چند لوگ اکا دکا مضامین لکھ کر دل کا بوجھ ہلکا کر لیں گے یا ٹھنڈے ڈرائنگ رومز میں مشروبات کا لطف اٹھاتے، سگار و سگریٹ سلگاتے ہونے والی منظر کشی ہر کش کے دھویں اور خمار تک محدود رہ جائے گی۔ گویا وزیراعظم عمران خان کے اس فیصلے کو واضح پذیرائی حاصل ہو یا نہ ہو لیکن واضح مخالفت کہیں سے بھی سامنے نہ آسکے گی۔

اب اگلے تین سال یا کم از کم 2022 تک وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی صورت میں ایک ’ٹیم پاکستان‘ تشکیل پا چکی ہے جسے اب پاکستان کے استحکام اور ترقی جیسا جناتی کام محض تین سال کے اندر انجام کر دکھانا ہے۔ اس وقت ملک میں سول ملٹری ہم آہنگی تاریخ کے بے مثال موڑ پر ہے۔ ایسی ہم آہنگی، سپورٹ اور پرفارم کرنے کو کھلا میدان جنرل ایوب یا جنرل مشرف اور ان کی چنیدہ سول حکومتوں کو بھی حاصل نہ تھا۔

ماضی میں عمران خان کا نظریہ کیا تھا یا انہوں نے کیا کہا تھا، ماضی میں کس کو ایکسٹینشن ملی یا اس کا نتیجہ کیا نکلا اس بحث کا زیادہ عرصے تک فائدہ نہ ہوگا۔ اب آگے دیکھنا ہے۔ فارورڈ، مارچ کرنا ہے کہ اس فیصلے کے اب آئندہ نتائج اور اثرات کیا ہوں گے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ملکی و علاقائی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔

اس وقت پاکستان کو درپیش سب سے بڑا بحران سانحہ کشمیر کا اور سب سے بڑا خطرہ مشرقی سرحد سے ہے۔ آئے روز لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں اور قیمتی جانوں کی شہادت، جنگی جنون میں مبتلا مودی سرکار کے وزیر دفاع کا جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی احمقانہ اور غیر ذمہ دارانہ سوچ کا اظہار، بھارت کشمیر پر غاصبانہ اور غیرقانونی قبضہ برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ مودی سرکار محض الیکشن جیتنے کے لیے پاکستان پر حملہ آور ہو کر خطے اور دنیا کے امن کو داؤ پر لگا سکتی ہے تو اب اس سے کچھ بھی بعید نہیں۔ ہر گزرتے دن بھارت میں حکومتی جماعت بی جے پی یا اس کے اتحادی لائن آف کنڑول کراس کر کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر حملے اور قبضے کی جنونی بڑھکیں مارتے نظر آتے ہیں۔ مودی، امت نیکسس اور میڈ دوول کے کا مقابلہ کرنے کے لیے ’ٹیم پاکستان‘ کا برقرار رہنا اور کامیاب ہونا انتہائی ضروری ہے۔ مغربی سرحد پر افغان امن عمل کا پایہ تکمیل تک پہنچنا نہ صرف افغانستان اور پاکستان بلکہ پورے خطے اور دنیا کے امن کے لیے ضروری ہے۔

قوی امید ہے کہ چند ہفتوں یا ماہ میں افغان امن معاہدہ عمل میں آجائے گا اور ایسا امریکی صدارتی انتخابات کی الیکشن مہم سے پہلے ممکن کرنا صدر ٹرمپ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے تاش کے اہم ترین پتے کی مانند ہے۔ چین کے ساتھ سی پیک کے اہم ترین منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ کچھ نظریاتی اور سٹریٹیجک معاملات کی پیشرفت ضروری ہے۔

سب سے بڑھ کر ملک میں معاشی بحران پر قابو پایا جانا، جیسے این ڈی یو میں منعقدہ ایک سیمینار میں ریاست اپنا بیانیہ دے چکی ہے، انتہائی سنگین چیلنج ہے۔ معاشی صورتحال کا براہ راست تعلق ملکی سلامتی سے ہے اور سانحہ کشمیر پر جس صورتحال کا پاکستان کو سامنا ہے اس کے بعد اب یہ بیانیہ اور اس کی عملی تصویر قوم کے سامنے مزید واضح ہو جانی چاہیے۔

ان گوناگوں پیچیدہ اور انتہائی سنگین چیلنجز کی بھر مار میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرنا وزیراعظم عمران خان کا ٹھوس فیصلہ معلوم ہوتا ہے لیکن یہ اہم ترین اور سب سے بڑا فیصلہ پاکستان کے لیے کس قدر مثبت اور فائدہ مند ثابت ہوتا ہے یہ بھی اب وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ’ٹیم پاکستان‘ بن کر ہی ثابت کرنا ہے۔ اگر اگلے تین سالوں میں اس فیصلے نے خود کو درست ثابت کر دکھایا اور اگلے چار سالوں میں وزیراعظم عمران خان نے خود کو بہترین فیصلہ ساز ثابت کر دکھایا تو عین ممکن ہے کہ اگلی ایکسٹینشن عوام عمران خان کو 2023 میں دے دیں۔

تب تک فارورڈ، مارچ!

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ