ویڈیو سکینڈل: ’ایک جج کی وجہ سے ججوں کے سر شرم سے جھک گئے‘

احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے خلاف ویڈیو سکینڈل کیس کا فیصلہ محفوظ، دوران سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ’اس معاملے کو ہلکا نہ لیں۔‘

مسلم لیگ ن کی جانب سے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک  کے خلاف جاری کی گئی ویڈیو (سکرین گریب)

پاکستان کی سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے خلاف ویڈیو سکینڈل کیس کے سلسلے میں دائر درخواستوں کی سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ایک جج کی وجہ سے تمام ججوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے آج سابق جج ارشد ملک کے خلاف ویڈیو سکینڈل کیس کی سماعت کی۔ کیس کی پیروی کے لیے اٹارنی جنرل انور منصور خان اور ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن عدالت میں پیش ہوئے۔ 

دورانِ سماعت ‎چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ ’ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ارشد ملک کو انہوں نے تعینات کروایا، کیا وہ شخص سامنے آیا؟‘

جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ارشد ملک کی مبینہ تعیناتی کرانے والا با اثر فرد سامنے نہیں آیا جبکہ ارشد ملک کے بقول نوازشریف کو بری کرنے کے عوض 10 کروڑ کی پیشکش ہوئی۔ تاہم شہباز شریف اور لیگی قیادت نے ویڈیو سے لاتعلقی ظاہر کی۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ’کیا جج ایسا ہوتا ہے جو فیصلہ سنانے کے بعد مجرم کے پاس جائے؟ ایک جج کی وجہ سے ججز کے سر شرم سے جھک گئے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا: ’جج ارشد ملک کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کے حوالے کیوں نہیں کی گئیں؟ وفاقی حکومت نے انہیں پاس کیوں رکھا ہوا ہے؟ لگتا ہے ارشد ملک کو لاہور نہ بھجوا کر انہیں تحفظ دیا جارہا ہے۔‘

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’اس معاملے کی تحقیقات آپ کرائیں، ویڈیو کا فرانزک ہوسکتا ہے یا نہیں؟ جج کی حد تک معاملہ ہم دیکھیں گے۔‘ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’جج کو حکومت نے تحقیقات کے لیے پاس رکھا ہوا ہے۔‘

تاہم چیف جسٹس نے کہا: ’اس معاملے کو ہلکا نہ لیں۔‘

سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، جو بعد میں سنایا جائے گا۔

اس کیس میں تین درخواست گزار ہیں جن میں سے ایک اکرام چوہدری نے معاملے پر ایف آئی اے کی تحقیقات پر سوال اٹھاتے ہوئے کمیشن بنانے کی درخواست کی ہے۔

ایف آئی اے کی رپورٹ:

سپریم کورٹ کے حکم پر پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی ویڈیو منظرعام پر لانے کے معاملے کی تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی۔

ایف آئی اے کی تحریری رپورٹ میں بتایا گیا کہ ویڈیو بنانے سے متعلق لاہور میں 6 جولائی کو ہونے والی پریس کانفرنس میں موجود مریم صفدر، شہباز شریف، خواجہ آصف، احسن اقبال اور عطا تارڑ سے بھی تفتیش کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق جب جج کی ویڈیو منظرعام پر لانے والی مسلم لیگ ن کی قیادت سے پوچھا گیا کہ اس پریس کانفرنس کا کیا مقصد تھا تو شہباز شریف نے جواب دیا کہ اس کا مقصد تین دفعہ وزیراعظم پاکستان رہنے والے میاں نواز شریف کو احتساب عدالت سے دی گئی سزا کے پس پردہ محرکات کو سامنے لانا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ کے مطابق دوسری جانب مریم صفدر کی جانب سے اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے سوال کے جواب میں شہباز شریف سمیت دیگر رہنماؤں نے کہا کہ ’مریم نواز سے پوچھیں ہمیں نہیں معلوم۔‘

ایف آئی اے رپورٹ کے مطابق ان رہنماؤں نے جج ارشد ملک کی 16 سال پہلے ملتان میں بننے والی ویڈیو سے بھی لاتعلقی کا اظہار کیا۔ شہباز شریف نے بتایا کہ یہ ویڈیو انہوں نے اور مریم صفدر نے نہیں دیکھی اور نہ انہیں اس بارے میں کوئی علم ہے۔

ایف آئی اے رپورٹ میں مریم صفدر کے متعلق بتایا گیا ہے کہ انہوں نے ویڈیو بنانے والوں سے خود کو الگ رکھنے کی کوشش کی تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ انہوں نے جو ویڈیو میڈیا کے سامنے پیش کی، وہ ناصر بٹ کے ذریعے ان کو موصول ہوئی۔

ایف آئی اے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویڈیو کا فرانزک آڈٹ بھی کرا لیا گیا ہے، جو ناصر ملک نے جج ارشد ملک کے گھر ریکارڈ کرائی۔

ایف آئی اے کے مطابق جج ارشد ملک نے دو ماہ میں دو عمرے کیے۔ 23 مارچ سے 4 اپریل 2019  تک جج ارشد ملک سعودی عرب میں رہے۔ دوسری بار 28 مئی سے 8 جون تک دوبارہ وہ سعودی عرب میں رہے۔

رپورٹ کے مطابق جج ارشد ملک کی مارچ 2003 میں بنائی گئی پرانی ویڈیو سے مریم صفدر نے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ رپورٹ میں لکھا گیا کہ جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو 2003 میں ملزم میاں طارق نے بنائی جبکہ ویڈیو ریکارڈ کرتے وقت میاں طارق وہاں موجود تھے۔

جب مسلم لیگ ن کی قیادت سے اس معاملے پر موقف لینے کے لیے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے عدالت میں کارروائی ہونے اور فیصلہ آنے تک بات کرنے سے انکار کردیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان