’میرا بیٹا کہہ کر گیا تھا کہ امی میں پیسے لے کر آرہا ہوں‘

کراچی کے علاقے بہادرآباد میں چوری کے الزام میں تشدد کے بعد ہلاک ہونے والے 15 سالہ ریحان کی والدہ نے کہا: اگر میرے بیٹے نے چوری کی تھی تو اسے عدالت میں لے کر جاتے، عمر قید کر دیتے لیکن کسی کو کسی کی جان لینے کا کوئی حق نہیں۔‘

کراچی کے علاقے بہادرآباد میں چوری کے الزام میں تشدد سے ہلاک ہونے والے 15 سالہ ریحان کے قتل میں ملوث پانچ ملزمان کو منگل کو سٹی کورٹ میں پیش کیا گیا، جہاں انہیں چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ دوسری جانب ریحان کے والد نے معاملے کی تحقیقات کی غرض سے جے آئی ٹی تشکیل دینے کے لیے آئی جی سندھ ،ڈی جی رینجرز اور محکمہ داخلہ سندھ کو درخواست دے رکھی ہے، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ مقدمہ قتل، دہشت گردی اور سائبر کرائم ایکٹ کی دفعات کے تحت درج کیا جائے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ریحان کے والد محمد ظہیر کا کہنا تھا کہ ’ہمیں ریحان کے لیے انصاف چاہیے، ہم چاہتے ہیں کہ واقعے کی مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’ہمیں انصاف کی توقع ہے لیکن غریبوں کو انصاف ملنے میں ہمیشہ دیر لگتی ہے۔ انہوں نے میرے بیٹے کو اغوا کیا اور رسیوں سے باندھ کر اس پر تشدد کیا اور پھر زبردستی ریحان کی ویڈیو بنائی گئی۔ اس لیے ہم نے درخواست کی ہے کہ مقدمہ قتل، دہشت گردی اور سائبر کرائم ایکٹ کی دفعات کے تحت درج کیا جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اتوار کے روز سوشل میڈیا پر کراچی کے علاقے بہادر آباد میں ایک لڑکے کو برہنہ کرکے تشدد کرنے کی ویڈیو منظرِعام پر آئی تھی، جس میں اس لڑکے کو جالیوں سے باندھ کر تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور پھر جبری طور پر اس سے ویڈیو بیان لیا گیا۔

ایس ایچ او تھانہ فیروز آباد اورنگزیب خٹک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملزمان کا کہنا تھا کہ ریحان چوری کی غرض سے ان کے گھر میں داخل ہوا، تاہم مقتول کے پاس سے نہ تو چوری کا کوئی سامان برآمد ہوا اور نہ ہی ایسے کوئی شواہد اب تک سامنے آئے ہیں جو اس بات کی تصدیق کرسکیں کہ ریحان ڈکیتی کرنے گیا تھا۔

ایس ایچ او کے مطابق یہ واقعہ ہفتے کے روز صبح 11 بجے کے قریب پیش آیا، جس کے بعد پونے ایک بجے تک ریحان پر مسلسل تشدد کیا گیا اور جبری طور پر ویڈیو بیان لیا گیا۔ بعدازاں اسے نیم مردہ حالت میں جناح ہسپتال پہنچایا گیا جہاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اس نے دم توڑ دیا۔ ریحان کے پورے جسم پر تشدد کے نشانات تھے جبکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے پر مزید تفصیلات سامنے آئیں گی۔

ایس ایچ اورنگزیب خٹک کے مطابق واقعے کا مقدمہ مقتول ریحان کے والد کی مدعیت میں قانون کی دفعہ 316 کے تحت درج کیا گیا جبکہ کیس میں قتل کی دفعہ 302 بھی شامل کی گئی، تاہم ریحان کے والدین نے مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ شامل کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

ایس ایچ او فیروزآباد تھانے کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں اب تک پانچ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں دانیال، زبیر، مسعود، شارق اور انس شامل ہیں۔

مقتول ریحان کراچی کی خداداد بستی کا رہائشی تھا، جس کے چار بہن بھائی ہیں۔ اس کی چھوٹی بہن زینب اور والدہ ریحانہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں جبکہ بڑا بھائی فیضان اور والد ظہیر ایک درزی کی دکان پر نوکری کرتے ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو نے ریحان کی رہائش گاہ پر جا کر اس کے اہل خانہ اور محلے والوں سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کیسا لڑکا تھا؟

ریحان کے بڑے بھائی فیضان نے بتایا کہ مقتول نے کافی چھوٹی عمر سے محنت مزدوری کی ہے۔ پہلے وہ محلے میں ایک مرغی کی دکان پر کام کرتا تھا۔ ’ایک ماہ قبل ہم نے قسطوں پر رکشہ خریدا تھا جس کے بعد ریحان نے رکشہ چلانے کا کام شروع کیا اور مجھے بھی چلانا سکھا رہا تھا۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی عید الاضحیٰ پر ریحان ہمارے چاچا کے ساتھ قصائی کا کام کرنے گیا تھا لیکن ہفتے کے روز جب وہ پیسے لینے گیا تو اسے اغوا کرکے اس پر تشدد کیا گیا۔‘

ریحان کی والدہ ریحانہ نے آنسوؤں کے درمیان بتایا: ’ہم غریب لوگ ہیں۔ میرے بچے نے پڑھا نہیں تھا۔ وہ اپنی محنت کے پیسے لینے گیا تھا۔ مجھے کہہ کر گیا تھا کہ امی میں بس پیسے لے کر آرہا ہوں، لیکن پھر مجھے میرا بیٹا جناح ہسپتال میں مردہ حالت میں ملا۔‘

ریحان کی والدہ نے مزید کہا کہ ’اگر میرے بیٹے نے چوری کی تھی تو آپ اسے عدالت میں لے کر جاتے، عمر قید کر دیتے لیکن کسی کو کسی کی جان لینے کا کوئی حق نہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’وہ کوکن پارک میں اکثر دوستوں کے ساتھ کھیلنے جاتا تھا کیوں وہ بچپن سے وہیں پلا بڑھا تھا۔ ہم پہلے کراچی کے علاقے دھوراجی میں رہتے تھے اور ایک سال قبل ہی خداداد کالونی شفٹ ہوئے ہیں، اس لیے ریحان کے اس علاقے میں کافی دوست ہیں۔ میرا بچہ بہت محنتی تھا، مجھے اس کے لیے انصاف چاہیے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی گھر