مسلمان خواتین کے لیے اپنا برانڈ شروع کرنے والی نائکی کی سفیر

آن لائن کچھ دستیاب نہ ہونے پر شازیہ نے اکتوبر 2015 میں کھیلوں کے کپڑوں کے برانڈ ایس ایچ ایتھلیٹکس کا آغاز کیا، جہاں بھدا دکھے بغیر ورزش کے لیے آرام دہ لباس تخلیق کیے جاتے ہیں۔

شازیہ 2017 سے نائکی  کی برطانیہ میں پہلی با حجاب سفیر ہیں۔ 

شازیہ حسین نے 2015 کے موسم گرما سے حجاب پہننا شروع کیا۔ وہ اُس وقت 19 سال کی تھیں جو جوتے فروخت کرنے والی کپمنی فٹ لاکر کے پاس جز وقتی ملازمت کرتی تھیں۔ انہیں اپنے جوتوں کے ساتھ اپنے لباس کو میچ کرنے کا خبط بھی تھا۔ وہ جِم جانے کی بھی بڑی دلدادہ ہیں جہاں وہ اپنے بھائی کو یہ ثابت کرنے کے لیے ورزش کرتی ہیں کہ وہ پش اپس کرسکتی ہیں۔

حجاب پہننے نے انہیں نئے مسائل سے دوچار کیا۔ ان کا کہنا تھا: ’مجھے نہیں معلوم تھا کہ عام طور پر اور خصوصاً جم میں سر کیسے ڈھانپوں!‘

 آن لائن کچھ دستیاب نہ ہونے پر شازیہ نے اکتوبر 2015 میں کھیلوں کے کپڑوں کے برانڈ ایس ایچ ایتھلیٹکس کا آغاز کیا، جہاں بھدا دکھے بغیر ورزش کے لیے آرام دہ لباس تخلیق کیے جاتے ہیں۔ لیکن جب انہوں نے اخبارات میں اپنے بارے میں مضامین پڑھے جن میں انہیں کاروباری شخصیت کے طور پر بتایا گیا تو انہیں احساس ہوا کہ وہ یہ ہیں۔ ’مجھے لگا اوہ میں یہی ہوں!۔ میں بس وہ کر رہی تھی جو کیا جانا چاہیے تھا اور میرے خیال میں اس طرح کئی کاروبار شروع ہوتے ہیں۔‘

شازیہ برطانیہ میں 2017 سے نائکی کی پہلی باحجاب سفیر مقرر ہیں۔ اس ملازمت کا مقصد اس برانڈ کو حجاب کا حامی ظاہر کرنا تھا۔ آئندہ اکتوبر شازیہ ریڈ بل یو کے اکیڈمی میں اپنی برادری میں تبدیلی لانے والوں کے ساتھ مل کر کام کریں گی۔

شازیہ کی کوششیں یعنی دن میں ذاتی ٹرینر سے لے کر کھیلوں کے ملبوسات تیار کرنے کا مقصد دوسروں کو اپنی سرگرمیوں کے حوالے سے پُراعتماد بنانا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’سب سے عام شکایت جو میں خواتین سے سنتی ہوں، وہ یہ ہے کہ وہ گھورنے سے گھبراتی ہیں۔ اکثر کا خیال ہے کہ شاید جِم ان کے لیے ہے ہی نہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب شازیہ کسی گاہک سے پہلی مرتبہ ملتی ہیں جو اکثر ان سے انسٹاگرام پر رابطہ کرتے ہیں تو وہ اُن ورزشوں سے آغاز کرتی ہیں جو انہیں اعتماد اور ورزش کا حق جتانے کی ترغیب دیتی ہیں۔ ان کا باقاعدہ باڈی بلڈنگ جم ہے جس میں زنگ آلود وزن بھی موجود ہیں۔ شازیہ کے مطابق: ’میں انہیں بتاتی ہوں کہ اگر آپ اس جم میں ورزش کرسکتی ہیں تو پھر آپ کسی بھی جم میں جاسکتی ہیں۔‘

شازیہ آغاز میں اپنے ممبران کو یقین دلاتی ہیں کہ جم میں اکثر لوگ اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں، لیکن وہ ساتھ میں انہیں اُن لوگوں کو مناسب جواب دینے کی تربیت بھی دیتی ہیں جو مداخلت کرتے ہیں۔ ’وہ لوگ جو اپنی ٹانگ اڑاتے ہیں، ان سے نمٹنے کا اعتماد میں یہ کہتے ہوئے دیتی ہوں کہ مجھے نہیں معلوم میں کیا کر رہی ہوں اور بس۔‘

انہیں ذاتی تجربے سے معلوم ہے کہ یہ اعتماد پیدا کرنے میں وقت لگتا ہے۔ شازیہ نے 15 سال کی عمر میں سکول کا غصہ نکالنے کے لیے ورزش شروع کی تھی۔ ’یہ غصہ نکالنے میں مدد دیتا ہے، وہ وقت جب وہ ورزش کرسکتی ہیں۔‘ شازیہ نے جس جم میں تربیت شروع کی وہ شمالی لندن کا ایک تفریحی مرکز تھا جو 1.6 پاؤنڈ کی رعایتی قیمت لیتا تھا، لیکن یہ ایک چھوٹا جم تھا جہاں سہولتیں محدود تھیں۔

وہاں ایک وزن کا کمرہ بھی تھا، لیکن اسے تقسیم کیا گیا تھا۔ شازیہ کو یاد ہے کہ اس میں انہیں ’مردوں کی بو‘ آتی تھی۔ انہوں نے اپنے کئی گاہکوں کی طرح وہاں نہ جانے کا فیصلہ کیا اور اس کی جگہ رزیسٹنس مشینوں کا انتخاب کیا۔ ’یہ کوئی سوچ بچار کے بعد کا عمل نہیں تھا بلکہ وہاں تمام مرد ہوا کرتے تھے اور میں ایک چھوٹی سی عورت۔‘

جم جانے کا مقصد ہمیشہ اپنی ظاہری شکل کی بجائے اپنی طاقت میں بہتری لانا ہوتا تھا۔ انہیں یاد ہے: ’میں ٹین ایجر تھی اور میں مضبوط ہونا چاہتی تھی۔ مجھے محسوس نہیں ہوا کہ یہ معمول کی بات نہیں تھی۔ میں نے سوچا، اگر میں پش اپ نہیں کرسکتی، تو میں پش اپ کرنے کی تربیت دے سکتی ہوں۔ اس کے برعکس کہ میں اپنا جسم بڑھنے دوں۔‘

بقول شازیہ: ’اب بھی وہ اس خیال کی مخالف ہیں کہ خواتین کو وزن کی تربیت سے دور رہنا چاہیے کیونکہ یہ مردوں کے لیے پُرکشش نہیں ہے۔ یہ سارا بدنما داغ ہے۔ میں صرف وہی کر رہی تھی جو میں چاہتی تھی۔‘

ایس ایچ ایتھلیٹکس اُس وقت قائم کی گئی جب شازیہ کو احساس ہوا کہ وہ ایسے کپڑے نہیں تلاش کرسکیں جو انہیں اعتماد دیں اور آرام دہ ہوں۔ دیگرعورتیں بھی اس سے مشکل میں ہوں گی۔ ’میں نے اِدھر اُدھر دیکھا تو ملائیشیا، ترکی اور سنگاپور میں یہ چیزیں دستیاب تھیں لیکن یورپ میں نہیں۔ مجھے خیال آیا کہ مجھے اپنے لیے جم کے مخصوص کپڑوں کی ضرورت ہے۔‘

انہوں نے اپنے ایک دوست سے بات کی جنہوں نے لباس کی اپنی ایک ترتیب شروع کی تھی: ’اس نے کہا کہ سپورٹس برانڈ شروع کرنا کافی آسان ہے کیونکہ یہ محض جیگنگز ہے اور پھر آپ فیصلہ کرتے ہیں کہ کاٹن ہو یا لائکرا، لیکن میں جو چاہتی تھی، اسے ابتدا سے شروع کرنا تھا۔‘

شازیہ نے اپنی جُز وقتی ملازمت سے چند سو پاؤنڈ بچائے تھے۔ ایک دوست کی مدد سے، جنہوں نے ڈیزائنر کی تربیت حاصل کی تھی، انہوں نے کچھ ایسی ڈرائنگز تیار کیں اور پھر اپنے پہلے لباس بنانے کے لیے آرڈر دیا۔ ان میں تربیت کے لباس شامل تھے، لمبے کٹے، اونچا نیچے ڈھلکنے والا اور لمبے بازوں والی ٹی شرٹس۔ اکتوبر 2015 میں جب ویب سائٹ کا آغاز ہوا تو شازیہ نے کچھ منٹ بعد ہی امریکہ سے پہلا آرڈر آنے پر جوش سے دیکھا۔ ’وہ بہت عمدہ تھا!‘ انہیں یاد ہے۔

ایس ایچ ایتھلیٹکس اس وقت تحقیق کے مرحلے میں ہے۔ شازیہ اس برانڈ کو 2020 میں نئے لباس کے ساتھ دوبارہ لانچ کرنا چاہتی ہیں۔ وہ اپنے کاروبار کو اپنی جیب سے چلا رہی ہیں لیکن کراؤڈ فنڈنگ کے بارے میں بھی سوچ رہی ہیں تاکہ اسے بہتر انداز میں آگے لے جا سکیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کم بجٹ والے نوجوان ڈیزائنر ہونے کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ چھوٹے آرڈر میں کپڑے تیار کرنے والے مینوفیکچرز کی تلاش رہتی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’جو مقدار میں چاہتی ہوں وہ بڑے صنعتی آرڈر نہیں ہیں کیونکہ میرے ڈیزائن بہت منفرد ہیں۔ مجھے ایک ایسی ڈویلپر کی ضرورت ہے جو مجھے سمجھتی ہو اور جس کے ساتھ میں کام کر سکوں۔‘

شازیہ اکتوبر میں برطانیہ میں پہلی ریڈ بُل اکیڈمی میں فٹنس کلاسز لیں گی۔ تاجروں کے لیے ان کا بہترین مشورہ ایسی چیز ہے جس کو ورزش میں آسانی سے اپنایا جاسکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں: ’جہاں ہو وہاں سے شروع کرو۔ ہمیں سوچنے سے جو روکتی ہے، وہ یہ سوچ ہے کہ ہمارے پاس سب کچھ ہو، برعکس اس کے کہ ہمیں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے چاہییں۔ پھر یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کیا دوسرے لوگ آپ کی مدد کرسکتے ہیں یا نہیں۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی فٹنس