بھارت سے تجارتی پابندی: پاکستانی ادویات کی صنعت بحران میں

بھارت سے خام مال نہ آنے کی وجہ سے پیداواری لاگت بڑھ جائے گی، جس کا براہ راست اثر ادویات کی قیمتوں پر ہو سکتا ہے، ادویات ساز کمپنیوں کا خدشہ۔

(پکسابے)

جموں و کشمیر سے متعلق بھارت کے متنازع فیصلے کے بعد پاکستان نے مشرقی پڑوسی کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کر دیے ہیں، جس کی وجہ سے ملک میں ادویات کی صنعت کے سرحد پار سے آنے والے خام مال کی درآمد بھی رک گئی۔

بھارت نے پانچ اگست کو اپنے زیر انتظام جموں و کشمیر کی مخصوص حیثیت ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان نے اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نو اگست کو بھارت سے ہر قسم کی تجارت بند کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

فیصلے کے بعد بھارت سے آنے والی دوسری اشیا کے علاوہ ادویات سازی کی صنعت میں استعمال ہونے والے خام مال کی درآمد بھی رک گئی۔

کابینہ کے فیصلے کے فوراً بعد ملک بھر کے دوا ساز کارخانے داروں کو مطلع کر دیا گیا کہ وہ بھارت سے خام مال درآمد نہیں کر سکتے۔

پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے سیکریٹری جنرل نواز احمد نے بتایا بھارت سے آنے والے خام مال پر مکمل پابندی لگ گئی ہے اور ہوائی اور بحری راستوں سے آنے والی تمام ترسیلات جہازوں سے اتارنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ 

پشاور میں ایک دواساز کمپنی کے مالک طارق سہیل خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ہمیں پیغام ملا تھا کہ نواگست کے بعد بھارت کے ساتھ کھلنے والی کسی بھی ایل سی (لیٹر آف کریڈٹ) کا مال پاکستان نہیں آ سکے گا۔

اسلام آباد کی ایک دوا ساز کمپنی کی خریداری سے متعلق سینیئر ملازم علی خالد نے بتایا کہ ممبئی سے کراچی پہنچنے والی کئی آبی ترسیلات منسوخ کر دی گئی ہیں، دوا ساز کارخانوں کے مالک ایسی صورت حال میں پریشان ہیں، خصوصاً چھوٹا کارخانے دار مصیبت میں پڑ گیا ہے۔

ادویات کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں؟

ادویات کے کارخانوں کے مالکان اور ملازمین کا خیال ہے کہ خام مال نہ آنے کے باعث پاکستان میں یہ صنعت بری طرح متاثر ہو گی۔

 علی خالد نے بتایا سب سے پہلے کارخانے دار کی پیداواری لاگت بڑھ جائے گی، جس کا براہ راست اثر ادویات کی قیمتوں کے بڑھنے کی صورت میں ہو سکتا ہے۔

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا چند روز قبل تک 80 ہزار روپے فی کلوگرام میں دستیاب بعض خام مال کی قیمت بڑھ کر سوا لاکھ فی کلو ہو گئی ہے۔

راولپنڈی میں ایک ادویات کمپنی کے اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا بندش کے بعد بعض بڑے کارخانے داروں نے غیر قانونی طریقوں سے خام مال بیچنا شروع کر دیا ہے۔

چھوٹے کارخانے دار سرمایہ کم ہونے کے باعث تھوڑا خام مال منگواتے ہیں اور پابندی کے باعث ان کے پاس مزید خام مال نہیں بچا۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا شاید مستقبل قریب میں ادویات تیار کرنے والے کئی ایک چھوٹے کارخانے بند ہو جائیں۔ ’اگر بھارت سے خام مال کی درآمد پر پابندی زیادہ عرصے جاری رہی تو مارکیٹ میں ادویات کی کمی اور قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہو جائے گا۔‘

یاد رہے کچھ ہفتے قبل ہی ادویات کی تجارت اور قیمتوں پر نظر رکھنے والا ادارے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) نے ادویات کی قیمتوں میں نو سے 15 فیصد اضافہ کیا تھا۔

بھارت سے کیا کچھ آتا ہے؟

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بھارت سے کم از کم 100 اشیا درآمد کرتا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ سالانہ تجارت کا حجم دس کروڑ امریکی ڈالر سے کچھ ہی زیادہ ہے۔

پاکستان کی مشرقی سرحد کے اس پار سے آنے والی اشیا میں سب سے بڑا حصہ ان کیمیائی مادوں کا ہے جو یہاں ادویات بنانے والے کارخانے خام مال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

دواسازی کی صنعت میں استعمال ہونے والے خام مال کے علاوہ بھارت میں تیار ہونے والی ادویات بھی بڑی تعداد میں پاکستان پہنچتی ہیں۔ یہ دوائیاں قانونی طریقوں کے علاوہ سمگلنگ کے ذریعے بھی پاکستان لائی جاتی ہیں۔

پی پی ایم اے کے عہدے دار نواز احمد نے بتایا دوا سازی کی صنعت میں استعمال ہونے والا 90 فیصد خام مال بھارت سے درآمد کیا جاتا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ بھارت سے درآمد ہونے والا زیادہ خام مال زندگی بچانے والی ادویات کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔

ان میں کینسر، ٹی بی، دل کی بیماریوں اور اعضا کی پیوند کاری کے بعد استعمال ہونے والی ادویات سر فہرست ہیں، جبکہ ویکسین بنانے میں استعمال ہونے والے کئی کیمیائی مادے بھی بھارت ہی سے آتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نوازاحمد نے مزید بتایا بہت کم مقدار میں ادویات کا خام مال چین سے بھی آتا ہے۔

چند ماہ قبل چین میں بارشوں اور سیلاب کے باعث ادویات کا خام مال تیار کرنے والے کارخانے متاثر ہوئے تھے، جس کی وجہ سے وہاں سے آنے والے خام مال میں پہلے ہی کمی آچکی ہے۔

تاہم ڈریپ خام مال کی تجارت پر پابندی سے پیدا ہونے والی صورت حال کو قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ادارے کے سینئیر افسر ڈاکٹر عبیداللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: فی الحال صورت حال اتنی تشویش ناک نہیں۔

ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں ڈریپ اور پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے عہدے داروں کے درمیان گذشتہ دو روز سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرایک سینیئر حکومتی اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کوشش کی جا رہی ہے کہ ادویات سازی کی صنعت کے لیے بھارت سے آنے والے خام مال کو اس پابندی سے باہر رکھا جائے۔

متبادل راستے کیا ہیں؟

ڈاکٹر عبیداللہ نے کہا کارخانے دار چین سے خام مال منگوا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ہمیشہ کارخانے دار کم از کم تین ذرائع کو پائپ لائن میں رکھتا ہے۔ کہ ایک کے بند ہونے کی صورت میں وہ دوسری جگہ سے خام مال حاصل کر سکے۔

تاہم دواساز تیار کرنے والے کارخانوں کے مالکان کے خیال میں چین کوئی بہتر متبادل ثابت نہیں ہو سکتا۔

نواز احمد کا کہنا تھا: بھارتی کمپنیاں بہت پرانی اور ہر لحاظ سے بین الاقوامی معیارپر پورا اترتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا بھارت سے خام مال منگوانے پر خرچہ اور وقت بھی کم لگتا ہے، جبکہ چین کی صورت میں پیداواری لاگت بڑھ سکتی ہے۔

علی خالد نے نواز احمد سے اتفاق کرتے ہوئے کہا چین کوئی اچھا متبادل نہیں۔

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا بھارت میں ادویات میں استعمال ہونے والا تقریباً ہر کیمیکل بنتا ہے جبکہ چین میں ایسا نہیں۔

علی خالد نے مزید کہا چین صرف خام مال نہیں دے گا۔ بلکہ بھارت سے خال مال نہ آنے کی صورت میں چین کا کارخانے دار تیار دوائیاں بھی پاکستان کی منڈیوں میں بھیج سکتا ہے، جس سے پاکستانی صنعت متاثر ہو گی۔

نواز احمد نے کہا بھارت کے علاوہ کسی بھی دوسرے ملک سے خال مال منگوانے کی صورت میں ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا امکان موجود رہے گا۔

پاکستان کی دوا ساز صنعت کتنی بڑی ہے؟

 ڈریپ کے مطابق 20 کروڑ سے زیادہ آبادی کے ساتھ پاکستان دواسازی کی صنعت کے لیے بہت بڑی منڈی ہے اور مالی سال 2017۔2018کے دوران اس صنعت کی شرحِ نمو 22 فیصد سے زیادہ رہی۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک ہزار کے قریب ادویات تیار کرنے والے چھوٹے بڑے کارخانے ہیں، جن میں سے کم از کم 55 فیصد خالصتاً مقامی کارخانے ہیں جبکہ باقی ملٹی نیشنل دواساز صنعتیں ہیں۔

ان دواساز صنعتوں میں تیار ہونے والی لگ بھگ دس ہزار دوائیاں اس وقت پاکستان بھر کی منڈیوں میں دستیاب ہیں۔ یہ دوائیاں کئی دوسرے ملکوں کو بھی برآمد کی جاتی ہیں۔ جن میں پڑوسی ملک افغانستان سرفہرست ہے۔

ڈریپ کے مطابق 2020تک پاکستان کی ادویات ساز صنعت کا حجم 300 ارب روپے سے زیادہ ہو جائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت