بات وہ آدھی رات کی، رات بھی شہر بنکاک کی

بنکاک شہر میں جب ایک ہوش ربا، کافر ادا، اردو دان حسینہ سے ملاقات ہوئی تو اس کا انجام کیا ہوا؟

(پکسا بے)

محترمہ تحریم عظیم کا بلاگ ’بنکاک کی ٹیکسیوں کے کیمرے اور ٹُک ٹُک‘ پڑھا تو بھولی بسری یادوں کے چراغ جل اٹھے۔ باتیں تو بہت سی ہیں مگر آج ہم فقط لکھنؤ کے ایک اہلِ زباں سے اپنی شرمناک سی ملاقات کا احوال بیان کریں گے، جو بنکاک کے ایک فور سٹار ہوٹل میں ہمارے ہاتھ لگے تھے۔

اردو پر ہماری دسترس کمزور سہی مگر کسی اہل زباں سے صحبت کا کوئی موقع ہم ضائع نہیں کرتے۔ اگر مقرر کوئی خوش گفتار سی خاتون ہو تو یہ لطف دو آتشہ بھی ہو جاتا ہے، بصورت دیگر ہم دستیاب مال پر ہی گزارہ کر لیتے ہیں۔ اسی اصول کے تحت اُس بھیگی شب لکھنوی صاحب کو بھی ہم نے خوش دلی سے گلے لگایا اور وہ بھی دیارِ غیر میں قدر دان پا کر آداب، آداب کرتے ہمارے آگے بچھتے چلے گئے۔

لکھنؤ کی شائستہ اور نستعلیق اردو سے لطف اٹھاتے ہم نے جھیل جیسی دو آنکھوں کے تیز دھار کیمروں کی چبھن اپنے چہرے پر محسوس کی۔ بنکاک کے یہ کیمرے اتنے تیزدھارواقع ہوئے ہیں کہ ان کی شعاعیں مسافر کی آنکھوں کے رستے دل سے ہوتی ہوئی اس کی جیب سے بھی پار ہو جاتی ہیں۔

ہم نے کیمروں کی جانب مڑ کر دیکھا تو کھلا کہ قریب بیٹھی ایک تھائی حسینہ، جس کی تنگ جینز کے آگے ہماری تنگ دستی حقیر تھی، نہ صرف ہماری گفتگو دلچسپی سے سن رہی ہے بلکہ اپنا ’لُچ‘ تلنے کو بھی بے تاب ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قبلہ لکھنوی بھی یہ اشتیاق تاڑ گئے اور لُچ متوقع کے انتظار میں بے چینی سے صوفے پر پہلو بدلنے لگے۔ آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور اس پری وش نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے انگریزی میں کہا کہ وہ بھی اردو بول سکتی ہے۔ ہم دونوں کو خوشگوار حیرت ہوئی۔

اب لکھنوی حضور نے یو ٹرن لیتے ہوئے ہمیں نظر انداز فرما دیا اور اپنی دلکش اردو کی توپوں کا رخ اس مہ جبیں کی طرف موڑ دیا۔ ابھی آپ نے پہلا فائر ہی کیا تھا کہ ’چشم بد دور، اے نورِ دیدہ، اگر طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو بندۂ حقیر آپ کا اسمِ گرامی پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہے؟‘

وہ قتالہ انہیں ٹوک کر انگریزی میں گویا ہوئی، ’نہیں، نہیں میں اردو نہیں سمجھ سکتی، مجھے تو اس زبان کے فقط چند جملے یاد ہیں، جن کا مطلب بھی مجھے معلوم نہیں، آپ کہیں تو پیش کروں؟‘

لکھنوی صاحب قدرے مایوس ہوئے مگر خوش دلی سے بولے ’پلیز، پلیز۔‘

الامان! اب جو اس کافر نے اردو میں انہیں پانچ، پانچ ٹن کی آٹھ، دس گالیاں دیں تو قبلہ سکتے میں آ گئے۔ نامعقول عورت نے اپنی غیرمہذب اردوکی وضاحت کرتے ہوئے کہا  اس کے ایک پاکستانی دوست نے اسے یہ جملے رٹا کر تاکید کی تھی کہ یہ اردو کی خوبصورت ترین باتیں ہیں، پس جب بھی کوئی اردو بولنے والا نظر آئے، سنا کر انعام لے لینا۔

کم بخت نے صورت‌ِ حال کی نزاکت کا احساس کیے بغیر دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ سوال کیا، ’میری اردو کیسی ہے ؟‘ قربان جاؤں لکھنوی تہذیب کے۔ قبلہ نے اپنا سر اس بت کافر کے سامنے جھکا کر فرمایا، ’محترمہ، اپنا جوتا اتاریے اور مسلسل ہمارے سر پر برسائیے!‘

شرمناک قصہ ختم ہوا۔ عرض یہ کرنا ہے کہ اپنی ناقص تحریروں پر جہاں اہل علم کی طرف سے ہماری حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، وہاں ایسے قارئین سے بھی واسطہ پڑتا ہے کہ بے اختیار لکھنوی صاحب کا قول زریں یاد آ جاتا ہے۔ اپنے کالم نگاری کے ابتدائی دور میں کیا جانے والا ایک شاندار تبصرہ ہمیں ہمیشہ یاد رہے گا۔ شناسا شخصیت نے فرمایا، ’آپ کا اشتہار اخبار میں دیکھا تھا، اچھا لگا، کتنے پیسے دیے تھے اس کو چھپوانے کے لیے؟‘

عرض کیا، ’جتنے بھی دیے تھے، پورے ہو گئے۔‘

ایسی ہی ایک خاتون نے فون کیا۔ چٹخارے لیتے ہوئے بولیں ’پکوڑے لیے تھے، لفافے پر آپ کا کالم تھا، بڑا مزا آیا۔‘

ہم نے پوچھا وہ کالم کی بات کر رہی ہیں یا پکوڑوں کی؟ ستم ظریف نے برجستہ جواب دیا، ’دونوں کرارے ہیں، آپ کالم چٹ پٹا لکھتے ہیں لیکن ایک دفعہ پھجے کے پکوڑے بھی کھا لیں، تو پتہ چلے۔‘

کچھ خواتین و حضرات دعا کو دغا ہی پڑھنے پر مصر ہوتے ہیں۔ ہم نے ایک ادبی شخصیت کے متعلق لکھا کہ لغت ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہتی ہے۔ ایک مجاہد اردو غصے میں بولے، ’لا حول ولا قوت! آپ نے اتنے عظیم آدمی کے بارے میں یہ کیا لکھ دیا کہ لعنت ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہتی ہے؟‘

بعض باذوق قارئین جب طنز و مزاح کو بھی سنجیدہ تحریرسمجھ کر پڑھتے ہیں تو بڑے لطیفے جنم لیتے ہیں۔ ہم نے ’آپ کے لیے یہ ہفتہ کیسا رہے گا؟‘ کے عنوان سے اپنے کالموں میں فرضی کردار طوطے شاہ کی زبانی اس طرح کی پیشگوئیاں لکھیں: ’رواں ہفتے عشقیہ اوصاف کے سبب آپ کے پٹنے کا اندیشہ ہے‘، وغیرہ۔

ان تحریروں کے گہرے مطالعے کے بعد کچھ خواتین و حضرات نے ہم سے سنجیدگی کے ساتھ طوطے شاہ کا پتہ پوچھا تاکہ وہ اپنی قسمت کا حال جاننے کے لیے ان سے رجوع کر سکیں۔

ایسے ہی ایک کالم میں ہم نے لکھا کہ مقابلے کے امتحان کا جنرل نالج کا پرچہ آؤٹ ہو گیا ہے۔ سوالات اس طرح کے تھے: ’تحریک بحالی آمریت کے اغراض و مقاصد بیان کریں‘ وغیرہ۔ اب ہم کیا عرض کریں کہ بعض حضرات نے ’پرچہ آؤٹ ہونے ‘کی بھرپور مذمت کی اور ناقص نظام امتحان کوجی بھرکے کوسا۔

ہم قارئین کی ایسی الفتوں کی برکھا میں کئی بار جل تھل ہوئے ہیں، جب قاری کے آگے سر جھکا کر کہنے کو دل کرتا ہے کہ جوتا اتاریے حضور۔

ہم خود بھی کئی مرتبہ دوسروں کی مخولیہ باتوں کو سنجیدہ لیتے ہیں تو بعد میں شرمندگی ہوتی ہے۔ جیسے ن لیگ کے دورِحکومت میں ہم میاں برادران کی طرف سے ملک کو ایشیئن ٹائیگر اور لاہور کو پیرس بنانے کے دعوؤں کو سنجیدہ باتیں سمجھتے ہوئے اس انقلاب کا انتظار کرتے رہے۔

پچھلے ہفتے ہم نے عمران خان کا خطاب سنا تو حقیقت سمجھ میں آئی۔ انہوں نے کہا پاکستان ایشین ٹائیگر یا لاہور پیرس بنانے کے لیے نہیں، ریاست مدینہ کے اصولوں پر عمل کے لیے بنا تھا۔

جناب وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ وہ پاکستان کوایسی ریاست بنائیں گے جس میں رحم، انسانیت اور عدل و انصاف ہو گا۔

ہم نے عمران خان کی اس بات کو سنجیدہ لیا ہے، یقیناً ایسا ہی ہو گا مگر ڈر ہم اس بات سے رہے ہیں کہ اگر کبھی میاں برادران سے ملاقات ہوئی اورہم نے انہیں ایشین ٹائیگر اور پیرس والے دعوے یاد دلائے تو وہ ہماری سادگی پر ہنستے ہوئے سر جھکا کر قبلہ لکھنوی جیسا کوئی جملہ نہ کہہ دیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی