میانمار میں نئی جنگ، روہنگیا مسلمان دوہری مشکل کا شکار

میانمار کی ریاست رخائن کے مسلمان جو گذشتہ دو سال سے جاری فوجی کارروائی سے بچ گئے تھے، اب نئی مشکل میں پھنس گئے ہیں۔

میانمار میں حکام نے شمالی رکھائین کو انسانی حقوق کے اداروں اور صحافیوں کے لیے بند کر رکھا ہے(اے ایف پی) 

جب گذشتہ مہینے میانمار کے حکام نے بنگلہ دیش میں قائم پناہ گزین کیمپوں کا دورہ کیا تو انہوں نے ملک چھوڑ کر یہاں والے روہنگیا مسلمانوں کو واپس آنے کی دعوت دی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ، وہ اپنے ساتھ پمفلٹس پر بنے ایسے کارٹون بھی لائے تھے، جن میں حجاب پہنے خواتین کو چیک پوسٹوں کے قریب سے گزرتے ہوئے بخوشی اپنا شناختی کارڈ لہراتے دکھایا گیا، لیکن حکام نے مہاجرین سے اپنے ملک میں چھیڑی نئی جنگ کا تذکرہ نہیں کیا۔

2017 میں شروع کی جانے والے فوجی کارروائی کی وجہ سے شمال مغربی میانمار کے اکثریتی مسلمانوں کو زبر دستی بے دخل کر دیا گیا جبکہ دو لاکھ افراد پر مشتمل منقسم مسلمان آبادی ریاست رخائن میں ابھی بھی باقی ہے۔

یہ ان دیہاتوں میں موجود ہیں جو تشدد کی اس لہر سے بچ گئے تھے لیکن اب دو سال بعد وہ ایک نئے تنازعے کا شکار ہو رہے ہیں۔ گذشتہ سال سے حکومتی فوج’ اراکان آرمی‘ نامی ایک مسلح بدھسٹ رکھائین گروہ سے جنگ کر رہی ہے جو ملک میں اکثریتی آبادی ہے۔

درجنوں دیہاتیوں نے روئٹرز کو بتایا کہ اس بڑھتی ہوئے کشیدگی میں روہنگیا دونوں اطراف سے دھمکیوں کا سامنا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی واپسی کا امکان مزید کم ہو گیا ہے۔

شدید جھڑپوں کے مرکز بتھیڈوانگ کے علاقے میں رہنے والے ٹن شیوی کا کہنا ہے کہ’ ہم ان دونوں کی جنگ کے درمیان پھنس چکے ہیں۔ گذشتہ دو سال میں ہماری زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ یہ بدتر ہوئی ہیں اور صرف مشکلات بڑھی ہیں‘۔

25 اگست 2017 کو سکیورٹی پوسٹوں پر ہونے والے حملوں کے بعد میانمار کی فوج نے کریک ڈاؤن شروع کیا جس کے نتیجے میں سات لاکھ تیس ہزار روہنگیا رخائن کے علاقے سے نکل کر بنگلہ دیش جا چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اس فوجی کارروائی میں بڑے پیمانے پر قتل عام، گینگ ریپ اور ’نسل کشی کی غرض سے‘ کیے جانے والے جرائم شامل ہیں۔

میانمار کی فوج ان تمام الزامات کو رد کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ ایک جائز اور قانونی فوجی آپریشن ہے جو’ دہشت گردوں‘ کے خلاف کیا جا رہا ہے۔

جمعرات کو3450 روہنگیا مسلمانوں کی وطن واپس کی کوششیں اس وقت ناکام ہو گئیں جب ان پناہ گزینوں نے ملک واپس جانے سے انکار کر دیا۔ حکام انہیں واپسی کی کلیئرنس دے چکے تھے۔

میانمار کی وزارت سماجی بہبود کے ڈائریکٹر من تھین کا کہنا ہے: ’واپس آنے والے پناہ گزینوں کی حفاظت کا بندوبست کر لیا گیا تھا، میانمار پولیس ان کی حفاظت کرے گی۔‘

فوج ترجمان نے اس حوالے سے موقف لینے کی کوششوں کا کوئی جواب نہ دیا۔

انٹرنیٹ پر پابندی

حکام نے شمالی رخائن کو انسانی حقوق کے اداروں اور صحافیوں کے لیے بند کر رکھا ہے۔ گذشتہ جون سے اس علاقے میں انٹرنیٹ بھی مکمل طورپر بند ہے۔ اس پابندی کا مقصد علاقے میں بد امنی روکنا ہے۔

ان پابندیوں کی وجہ سے معلومات کی تصدیق کرنا کافی مشکل ہو چکا ہے لیکن روئٹرز نے اس حوالے سے شمالی رکھائین اور وسطی رخائن میں رہنے والے درجنوں روہنگیا اور بنگلہ دیش میں موجود پناہ گزینوں سے بات کی جن کے رشتہ دار ابھی تک اسی علاقے میں موجود ہیں۔

کئی لوگوں نے مسلمان علاقوں میں گولے گرنے اور بارودی سرنگیں پھٹنے کے بارے میں بتایا۔ اس کے علاوہ دونوں متحارب اطراف کی جانب سے انہیں ڈرانے دھمکانے کے بارے میں بھی بتایا۔

دو افراد نے روئٹرز کو بتایا کہ اگر ممکن ہو تو وہ بھی بنگلہ دیش منتقل ہونا چاہیں گے لیکن تشدد کی اس لہر کی وجہ سے پناہ گزینوں کی جانب سے ماضی میں استعمال کیے جانے والے راستے غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔

پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ایجنسی کے مطابق جنوری سے ایک ہزار سے زائد روہنگیا بنگلہ دیش کے کیمپوں میں آچکے ہیں۔ اس اعداد و شمار میں بھارت سے آنے والے افراد بھی شامل ہیں جو کئی ماہ سے مبینہ طور پر غیر قانونی روہنگیا پناہ گزینوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔

ادارے کی ترجمان لوئس ڈونوان کا کہا ہے میانمار سے آنے والے افراد اراکان آرمی اور میانمار کی فوج کے درمیان جنگ سے ہونے والے تشدد اور مفلوک الحالی کو ملک چھوڑنے کی وجہ بتاتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں گنجان آباد پناہ گزین کیمپوں میں مقیم کئی افراد کا کہنا ہے کہ وہ ملک واپس جانا چاہتے ہیں لیکن ایسا صرف کچھ شرائط پر ہو سکتا ہے جن میں ان کی شہریت کی ضمانت اور حفاظت کو یقینی بنانے سمیت ان کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے وعدے شامل ہیں۔

غیر قانونی مہاجر کہلائے جانے والی مسلمان کئی نسلیں میانمار میں ہی رہائش پذیر ہیں۔ روہنگیا کی اکثریت کو شہریت دینے سے بھی انکار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان پر سخت پابندیاں بھی عائد کی جاتی ہیں ۔جن میں نقل اور حرکت پر پابندی اور انہیں اپنے علاقوں میں محدود رکھا جاتا ہے۔

امداد کی کمی

میانمار میں مقیم بہت سے روہنگیا غیر منافع بخش عالمی اداروں کی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔ 2012 سے کیمپوں میں رہنے والے افراد کھانے اور ادویات کے لیے انہیں اداروں کی جانب دیکھتے ہیں لیکن جب سے اراکان آرمی کا معاملہ شروع ہوا ہے بہت کم امداد ان تک پہنچ پا رہی ہے۔

رتھڈوانگ کے سن کھون تیانگ علاقے میں روہنگیا افراد کا کہنا ہے : ’انہیں خوراک کی آخری قسط مئی میں ملی ہے۔ ایک دیہاتی نے بتایا لوگ چاولوں کا دلیہ کھا کر زندہ ہیں۔

روہنگیا کے بحران پر نظر رکھنے والے ادارے برما انسانی حقوق نیٹورک کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیا ون کا کے مطابق انہیں روہنگیا علاقوں کے قریب سڑکوں بارودی سرنگیں اور بم ملے ہیں۔

61 بین الاقوامی غیر منافع بخش اداروں کے مشترکہ بیان کے مطابق برما میں رہنے والے روہنگیا کے لیے نقل و حرکت اور انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ان تنظیموں میں سیو دی چلڈرن اور اوکسفام بھی شامل ہیں۔ بیان کے مطابق’ کشیدگی میں اضافے سے وسطی اور شمال مغربی رکھائین میں انسانی بحران مزید سنگین ہو چکا ہے۔‘

انٹرنیٹ کی بندش کے باعث سرحد پار بنگلہ دیش کے گنجان آباد کیمپوں میں مقیم افراد فون کے ذریعے میانمار میں رہنے والے اپنے رشتہ داروں سے رابطہ کرتے ہیں۔ کوئی بھی انہیں واپس آنے کو نہیں کہتا۔

ٹن شیو کا کہنا ہے : ’ تمام لوگ اس ملک سے جانا چاہتے ہیں جہاں کوئی تحفظ نہیں ۔ حکومت باقی رہ جانے والے کچھ روہنگیا کی مدد نہیں کر سکتی تو یہ امید کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ لاکھوں کی مدد کرے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا