پلوامہ کے ڈاکٹر ایمبولینس میں ’پِک اینڈ ڈراپ‘ لینے پر مجبور

کشمیر کی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد جنوبی ضلع پلوامہ کے رہائشیوں نے ’سول کرفیو‘ نافذ کر رکھا ہے، اس صورتحال میں ڈاکٹرز اور ہسپتالوں کا عملہ خاص طور سے مشکلات کا شکار ہے۔

نئی دہلی کی مرکزی حکومت کی جانب سے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد پانچ اگست سے وادی میں کرفیو نافذ ہے جبکہ جنوبی ضلع پلوامہ کے رہائشیوں نے ’سول کرفیو‘ نافذ کرکے دکانیں اور کاروباری مراکز بند کر رکھے ہیں اور سڑکوں سے ٹریفک بھی غائب ہے۔

عسکریت پسندی کا گڑھ سمجھے جانے والے ضلع پلوامہ کے کئی دیہی علاقوں میں لوگوں نے راستے بلاک کر رکھے ہیں اور بھارتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں معمول کی بات ہیں جبکہ ذرائع مواصلات بند ہونے کی وجہ سے بھی لوگوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

اس ساری صورتحال میں ڈاکٹرز اور ہسپتالوں کا عملہ خاص طور سے مشکلات کا شکار ہے، جو گاڑیاں نہ ہونے کے باعث ایمبولینسوں کو ہی بطور پِک اینڈ ڈراپ سروس استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

پلوامہ کے علاقے نیوہ کے ہسپتال میں تعینات ڈینٹل سرجن ڈاکٹر ظہور احمد زرگر کہتے ہیں: ’ہمارا ہسپتال پلوامہ کے دیہی علاقوں کا واحد سہارا ہے لیکن ملازمین اور ڈاکٹرز کو آنے جانے میں دقّت ہوتی ہے۔ لہذا ہم ان کے لیے ایمبولینس بھیجتے ہیں۔ ایک دو منٹ اوپر نیچے ہوجاتے ہیں لیکن ہر کوئی ڈیوٹی پر ضرور آتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ہڑتال کے باعث وہ ادویات اور طبی سامان کی کمی کا بھی سامنا کر رہے ہیں۔ ’ہم روزانہ سڑک حادثات کے کئی زخمیوں کا علاج کرتے ہیں لیکن اس صورتحال کی وجہ سے ہسپتال میں زخم دھونے والی دوا کی قلت ہو چکی ہے۔‘

ڈاکٹر ظہور کے مطابق کچھ دواؤں کی سپلائی جن میں دانتوں کی فلنگ اور ڈریسنگ کے علاوہ حاملہ خواتین کے لیے کچھ اویات اور بچوں کے او آر ایس شامل ہیں، ختم ہوچکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ابتدائی طبی امداد دے دیتے ہیں اور زیادہ زخمیوں کو بڑے ہسپتالوں میں ریفر کر دیتے ہیں لیکن ہمارے پاس ایمبولینس ایک ہے اور دو ڈرائیور ہیں جو باری باری شفٹ میں ڈیوٹی دیتے ہیں، اسی طرح ہم ہسپتال چلا رہے ہیں۔‘

اسی ہسپتال میں کام کرنے والے ڈینٹل ٹیکنیشن سمیر احمد نے بتایا کہ ’15، 16 دن سے ہمیں ٹرانسپورٹیشن کا مسئلہ ہے۔ راستے میں لوگوں نے سڑکیں بند کی ہوئی ہیں۔انہیں بتانا پڑتا ہے کہ ہم ہپستال کے ملازم ہیں۔ آنے جانے میں بہت زیادہ مشلات ہوتی ہیں، پیدل چل کر آنا پڑتا ہے۔‘

سمیر احمد نے مزید بتایا کہ ’اس ہستال میں 28 ملازمین ہیں، لیکن فون سروس بند ہونے کی وجہ سے رابطے نہیں ہوپاتے، ہم ایک ایمبنولینس بھیجتے ہیں جو لوگوں کو ان کے گھروں سے پِک کرکے لے آتی ہے۔‘

علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ آرٹیکل  370 کا خاتمہ دراصل ان کی ’شناخت کا خاتمہ‘ ہے اور وہ اُس وقت تک شٹ ڈاؤن جاری رکھیں گے جب تک یہ حکم واپس نہیں لے لیا جاتا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا