کرفیو کے دوران ہسپتال میں گزری عید کی رات

ہسپتال میں ہو کا عالم ہے، مریض کراہ رہے ہیں۔ ڈاکٹر پریشانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے گھروں کا حال اللہ پر چھوڑ رکھا ہے، لیکن کسی مریض کو بنا چیک کیے نہیں چھوڑتے۔ کشمیری صحافی نعیمہ احمد مہجور کی ڈائری

14 اگست 2019 کو  لی گئی اس تصویر میں سری نگر کے ایک ہسپتال میں زیرِعلاج  چھ سالہ کشمیری بچی کو دیکھا جاسکتا ہے، جو بھارتی فورسز کی جانب سے فائر کی گئی پیلٹ گن کا نشانہ بنی (تصویر: اے ایف پی)

عید کا پہلا دن تقریباً ختم ہونے ہی والا تھا کہ ہمارے باہر کے دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ میں نے اپنے کمرے کی لائٹ بند کردی، پردے کو سرکا کے گیٹ پر نظر ڈالی تو جانی پہچانی آواز سنائی دی۔ گھر کا ملازم گھبرا کر دروازہ کھولنے لگا تو میری ممیری بہن، اس کی بیٹی اور داماد ہاتھ میں بڑا سا ٹوکرا لے کمرے میں داخل ہوئے۔

ان کو رات کے اندھیرے میں دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ وہ دس کلومیٹر کا راستہ طے کرکے یہاں کیسے پہنچے ہیں۔ میں اندیشوں میں گھر جاتی ہوں کیونکہ میرے بہنوئی جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں اور شاید وہ بھی گرفتار ہوئے ہوں گے۔

گذشتہ ماہ سے جماعت اسلامی کے تمام کارکنوں کو جیلوں میں قید کر لیا گیا ہے۔ کوئی یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کر رہا ہے کہ ان پر، تاجر برادری پر، سول سوسائٹی پر، طلبہ یا وکیلوں پر کیا الزامات لگائے گئے ہیں، جنہیں رات کے اندھیروں میں گھر سے اٹھا کر پابند سلاسل کیا جا رہا ہے۔

میری بہن نے مجھے گلے لگایا اور آنسوؤں سے تَر آنکھوں سے ٹکٹکی باندھے دیکھے گئی۔ پھر کہا: ’خدا کے لیے یہاں سے نکل جاؤ، صحافی ہوکر اتنی غمزدہ کیوں ہو، تم ان حالات کے بارے میں لکھ کر دنیا کو آگاہ کرسکتی ہو مگر یہاں گھر میں قیدی کی طرح زندہ نہیں رہ سکتی۔ ان حالات میں کیسے کام کر سکتی ہو جب فون یا انٹرنیٹ نہیں ہے۔کسی بھی طرح اس قید سے نکل جاؤ۔‘

وہ میرے چہرے پر عیاں بے قراری، اضطرابی اور غصے کی کیفیت کو بھانپ رہی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ میرے اندر کا طوفان باہر آنے کے لیے بے قرار ہے۔ میں نے اپنے جذبات اور اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کی لاحاصل کوشش کی اور پوچھا کہ ’رات میں اس طرح نکل کر آپ لوگ خود کو خطرے میں نہیں ڈال رہے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جتنا خطرہ گھر کے اندر محسوس کر رہے ہیں، اتنا سڑک پر آنے سے نہیں لگتا۔ جینے کی تمنا کس کو ہے اب؟ بھارت ہمیں آہستہ آہستہ مارنے ہی والا ہے لیکن ہمت ہے تو ایک بار اپنی فوج کو بیرکوں میں بھیج دے۔ خوف کس کا اور کیوں؟ بھارت کرفیو عائد کرکے ہمیں دبانا چاہتا ہے۔ کشمیری دبنے والی قوم نہیں ہے۔ اس کو اس وادی سے آج نہیں تو کل نکلنا ہے۔‘

اپنی بہن کی باتیں سن کر مجھے پھر کھڑا ہونے کا حوصلہ مل رہا ہے۔ ان کے داماد اپنی آنکھیں مل کر کہہ رہے ہیں: ’ہم فوجی بنکروں اور فوجیوں کے سامنے سے نکلے، وہ دیکھتے رہے، ہماری قربانی کے گوشت سے بھری اس ٹوکری کو گھورتے رہے۔ میں نے ان سے کہا اس میں پتھر نہیں قربانی کا گوشت ہے جو رشتے داروں میں تقسیم کرنا ہے۔ ہم اپنے مذہب کی پاسداری کر رہے ہیں جیسے آپ ہندو مذہب کی کرتے ہیں۔ اگر آپ بھی گوشت لینا چاہتے ہیں تو آپ بھی آج ہمارے ساتھ بقر عید مناؤ۔‘

ان کا افسر رعب دار لہجے میں کہنے لگا: ’کرفیو کی خلاف ورزی کر رہے ہو، کیا جیل جانا چاہتے ہو؟‘ میں نے جواب دیا: ’آپ نے چند ہفتے پہلے جو نئی جیلیں بنائی تھیں، وہاں بھی اب جگہ نہیں۔ کیا آگرہ، تہار، جودھپور اور کوٹ بلوال میں ابھی جگہ ہے؟ ویسے بھی ہماری ریاست کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کیا ہے۔‘ وہ ہنس پڑا اور قریب آکر سرگوشی میں کہنے لگا: ’ہمیں بھی اچھا نہیں لگتا مگر اس پاپی پیٹ کا کیا کریں جس نے مجھے جھار کھنڈ سے یہاں اس جہنم میں پہنچا دیا۔ جاؤ بھائی جاؤ، میری طرف سے جانے کی آزادی ہے۔ اگر آگے پکڑ لیا تو بتانا ہسپتال جانا ہے وہ چھوڑ دیں گے۔‘

’اس نے قربانی کا گوشت لینے سے انکار کیا اور ہم وہاں سے نکل گئے۔ دس مقامات پر ہمیں روکا گیا اور ہم نے بھی ہسپتال جانے کی رٹ لگائی۔‘

میری بہن نے کہا کہ انہوں نے گاڑی میں بریانی کی دیگ رکھی ہے اور وہ ہسپتال میں کئی روز سے پھنسے ہوئے مریضوں کے تیمارداروں کے لیے لے جا رہی ہے۔ رات کے 12 بجے ہیں۔ میں نے بہن سے پوچھا کہ کیا میں بھی ہسپتال آپ لوگوں کے ساتھ آسکتی ہوں؟

’کیوں نہیں۔۔۔ واپسی میں ہم آپ کو چھوڑیں گے۔‘

میں نے کچن میں پڑے فروٹ اور بسکٹ بیگ میں رکھے۔ میرے گھر میں عید کا کھانا نہیں پکا تھا ورنہ وہ بھی ہسپتال ضرور لے جاتی۔ میں یہ رات ہسپتال میں گزاروں گی بغیر کسی کو بتائے۔ میں نے ڈوپٹے سے چہرے کو چھپالیا، آیت الکرسی پڑھی اور ایک نیا عزم لے کر بہن کے ساتھ گاڑی میں دبک کر بیٹھ گئی۔

یقین کریں میں نے رات کے اس پہر میں آج اپنی لمبی جدوجہد کا دوسرا قدم رکھا ہے اور میں ہسپتال کے راستے میں اپنے جیسے کئی اور متوالوں کو دیکھ رہی ہوں، جن کے چہروں پر ظلم کے خلاف لڑنے کی ہمت اور حوصلہ ہے۔ آنکھوں کے پانی میں پھر وہی خواب تیر رہا ہے اور دل کی تیز دھڑکن میں زندہ رہنے کا پیغام پورے ہسپتال کو جگا رہا ہے۔

ہسپتال میں ہو کا عالم ہے، مریض کراہ رہے ہیں اور تیمار داروں کے چہروں پر وسوسوں کا جال بنا ہوا ہے۔ قریب ہی وہ بزرگ بیٹھا فہرست دیکھ رہا ہے جو ایک خیراتی ادارہ چلا رہا ہے اور شاید یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ کیا ہسپتال میں موجود گاؤں کے سبھی تیمارداروں کو کھانا مل گیا ہے۔ میری بہن بریانی کی دیگ اس کے حوالے کرتی ہے اور وہ اپنے پاس موجود نوجوانوں کو دیگ دفتر میں رکھنے کی ہدایات دے رہا ہے۔

چند ڈاکٹر ایمرجنسی وارڈ سے نکل رہے ہیں اور میں ان کی جانب دوڑتی ہوں۔ وہ مجھے نہیں پہچانتے، مگر جب میں نے ڈوپٹے کو چہرے سے سرکایا تو وہ فوراً پہچان جاتے ہیں اور خیروعافیت پوچھتے ہیں۔ میں ادویات کی سپلائی کے بارے میں دریافت کرتی ہوں۔ وہ مثبت جواب دیتے ہیں مگر ایک ڈاکٹر کہہ رہا ہے کہ اگر حالات میں سدھار نہیں آیا تو مریضوں کو سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔ دور دراز کے ڈاکٹر نہیں پہنچ پارہے ہیں۔ مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور گزشتہ ایک ہفتے سے وہ ایک پل نہیں سو سکے ہیں۔

ڈاکٹروں کے چہرے سیاہ پڑ گئے ہیں۔ وہ پریشانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے گھروں کا حال اللہ پر چھوڑ رکھا ہے، لیکن کسی مریض کو بنا چیک کیے نہیں چھوڑتے۔ میں ان کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہوں مگر الفاظ حلق میں اٹک گئے ہیں۔

دور ایک کونے میں لمبی لائن ہے جہاں ایک ڈاکٹر کا موبائل فون چل رہا ہے اور ہسپتال کے آس پاس واقع محلوں سے لوگ یہاں آکر کشمیر سے باہر رہنے والے عزیزوں کا حال جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بیشتر عورتیں رو رہی ہیں، کچھ لوگوں کے فون مل رہے ہیں اور کچھ لوگ مایوس واپس لوٹ جاتے ہیں۔ میں بھی بچوں کو فون کرنا چاہتی ہوں مگر ہمت نہیں ہوتی۔کاش ان کی بات اپنے عزیزوں سے پوری ہوتی، کچھ لوگ حج بیت اللہ پر جانے والے اپنے حاجیوں کے بارے میں فکر مند ہیں۔ فون بار بار بند ہوتا ہے۔

میں واپس ڈاکٹر کے ساتھ وارڈ میں جاکر وہیں بیٹھ جاتی ہوں اور جو مریض اکیلے ہیں ان کے ساتھ وقت گزارنا چاہتی ہوں۔ میں پہلی بار  ان کے آس پاس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہوں جو دل دہلا دینے والی ہے اور اگر مجھ میں لکھنے کی ہمت قائم رہی تو ضرور بتاؤں گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی