’زرداری اور نواز توبہ کرتے ہی نہیں ہیں‘

اپوزیشن رہنماؤں کے احتساب کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز احمد شاہ نے کہا ’میں ضامن بنتا ہوں، ان کو بولیں پیسے دے دیں، میں نہ چھڑواؤں، تو پھر کہنا۔ بے شک آدھے ہی دے دیں۔‘

سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری ان دنوں کرپشن کے الزامات کے تحت جیل میں قید ہیں (فائل تصاویر: اے ایف پی)

وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز احمد شاہ نے انکشاف کیا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ہونے والے 2002 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ق) کو جتوانے کی پلاننگ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی وجہ سے خراب ہوئی۔

نجی نیوز چینل کے ایک پروگرام میں میزبان سلیم صافی نے جب  وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز احمد شاہ سے سوال کیا کہ ’کیا یہ بات درست ہے کہ جنرل کیانی نے ق لیگ کو جتوانے کی ساری پلاننگ خراب کروائی تھی؟‘

جس پر اعجاز احمد شاہ نے جواب دیا: ’کام جو خراب ہوا وہ یہ تھا کہ (جنرل کیانی) پلاننگ میں ساتھ تھے، اَن ڈو کرنے میں بھی ساتھ تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی میرے بھائیوں کی طرح تھے، مجھ سے جونیئر تھے، جو بعد میں جنرل بن گئے۔

اعجاز احمد شاہ کے مطابق: ’پیپلز پارٹی کے ساتھ ڈیل بھی انہوں ہی نے کروائی تھی۔ میں نے نہیں کروائی تھی۔ اصولی طور پر میں نے کہا تھا کہ ق لیگ اور پی پی پی ساتھ نہیں چل سکتے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2002 کے عام انتخابات پرویز مشرف  کے دور میں ہوئے تھے، جب سابق وزیراعظم نواز شریف جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ اس  الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ(ق)  کے علاوہ دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی اور متحدہ مجلس عمل تھی۔

جب وزیر داخلہ اعجاز احمد شاہ سے پوچھا گیا کہ وہ پرویز مشرف کے دوست اور دست راست تھے،  تو کیا حالیہ دورِ حکومت مشرف کے ہی دور کا تسلسل ہے اور اگر نہیں تو آپ ان (وزیراعظم عمران خان) کے قریب کیسے آئے؟

جس پر بریگیڈیئر (ر) اعجاز احمد شاہ نے جواب دیا کہ ’اگر یہ تسلسل ہوتا تو وہ (مشرف) ہمارے ساتھ ہوتے یا ان کی پارٹی (آل پاکستان مسلم لیگ) پی ٹی آئی میں ضَم ہوجاتی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘

انہوں نے مزید وضاحت کی: ’پہلی بات تو یہ کہ میں کسی پارٹی میں نہیں تھا۔ میرا اُن (پرویز مشرف) سے تعلق تھا اور ہے۔ میں ان کے دور میں ان کا ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) تھا۔ میں سیاستدان نہیں تھا، پوری فوج پرویز مشرف کے ماتحت تھی اور میں ان کے ماتحت تھا۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’2008 کے الیکشن کے بعد میں نے استعفیٰ دیا اور گھر چلا گیا۔‘

سیاست میں ’پراسرار واپسی‘ کے حوالے سے سوال پر بریگیڈیئر (ر) اعجاز احمد شاہ نے جواب دیا: ’زرداری کی حکومت آئی تو میں نے استعفیٰ دیا اور گھر چلا گیا۔ اس میں پراسرار یہ ہوا کہ دس سال میں نے اپنے علاقے میں جاکر سیاست کی، تین الیکشن لڑے، دو میں ہارا اور تیسرے میں جیتنے کے بعد وزیر بن کر سب کے سامنے ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا: ’میں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی، یہ میری پہلی پارٹی ہے۔‘

جب اعجاز احمد شاہ سے پرویز مشرف یا عمران خان میں سے کسی کو بہترین قرار دینے کے بارے میں پوچھا گیا تو  انہوں نے جواب دیا: ’دونوں اچھے تھے، میں کسی کی دل آزاری نہیں کرنا چاہتا۔‘

’احتساب کے عمل میں سب سے زیادہ نقصان پی ٹی آئی کو ہوا‘

انٹرویو کے دوران وزیر داخلہ اعجاز احمد شاہ نے دعویٰ کیا کہ کرپشن کے خلاف جنگ اور احتساب کے عمل میں سب سے زیادہ نقصان خود پی ٹی آئی کو ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’زرداری ہو یا کوئی وزیراعظم ہو، دیگر لوگوں نے تو مال کمایا ہے جبکہ ہمارے پی ٹی آئی کے لوگ تو بغیر مال کے بھی اندر جارہے ہیں۔‘

’ڈھائی کروڑ مہاجروں کو سمندر میں نہیں ڈال سکتے‘

متحدہ قومی موومنٹ کے حکومت میں اتحاد کے حوالے سے سوال پر وزیر داخلہ نے توجیہہ پیش کی کہ ایم کیو ایم والے ہمارے ساتھ حکومت میں ضرور بیٹھے ہیں لیکن وہ الطاف حسین کی آئیڈیالوجی کے ساتھ نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ دو ڈھائی کروڑ لوگ ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی ہر چیز قربان کی۔ انڈیا سے یہ لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئے۔ وہ دہشت گرد نہیں تھے، ان کو بنادیا گیا۔اب وہ بندہ (الطاف حسین) چلا گیا، اس کی آئیڈیالوجی ختم ہوگئی تو کیا ان ڈھائی کروڑ لوگوں کو سمندر میں ڈال دیا جائے؟ توبہ کسی وقت بھی ہوسکتی ہے، توبہ ہوگئی ہے۔‘

تاہم جب ان سے سوال کیا گیا کہ پھر آصف علی زرداری اور نواز شریف کی توبہ کیوں قبول نہیں ہوتی؟ تو انہوں نے جواب دیا: ’وہ توبہ کرتے ہی نہیں ہیں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’میں ضامن بنتا ہوں، ان کو بولیں پیسے دے دیں، میں نہ چھڑواؤں، تو پھر کہنا۔ بے شک آدھے ہی دے دیں۔‘

اپوزیشن کے خلاف احتساب کے عمل کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا: ’وزیراعظم عمران خان کوئی بھی فیصلہ اکیلے نہیں کر رہے، کابینہ کے اجلاس ہوتے ہیں، کوئی بھی اجلاس پانچ گھنٹے سے کم نہیں ہوتا اور جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس کو کابینہ اجلاسوں میں ڈسکس کیا جاتا ہے۔‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ ’عمران خان ریاست مدینہ کی باتیں کرتے ہیں، مدینے میں تو حکمران نے خود کو سب سے پہلے احتساب کے لیے پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ ماضی میں جو کچھ ہوا، وہ ختم ہوا۔ سب سے پہلا میرا احتساب ہوگا۔‘

جس پر وزیر داخلہ نے جواب دیا کہ ’عمران خان کو سپریم کورٹ آف پاکستان صادق اور امین قرار دے چکی ہے۔‘

سابق وزیراعظم نواز شریف کے مشیر اور صحافی عرفان صدیقی کی کرایہ نامہ ایکٹ کی خلاف ورزی پر گرفتاری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کیس کو نچلی سطح پر مِس ہینڈل کیا گیا تھا۔ لیکن وزیراعظم نے نوٹس لیا، جس کے بعد اتوار کو عدالت لگوا کر ان کی ضمانت کروائی گئی اور انہیں رہا کروایا گیا۔

ان کا کہنا تھا: ’اس میں کوئی شک نہیں کہ میں نے انہیں باہر نکلوایا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست