ٹریفک سے بچنے کے لیے سلیبرٹیز کا ایمبیولینس کا غیر قانونی استعمال

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایران کی اشرافیہ میں ایمبولینس کے ذریعے سفر کرنا ایک مشغلہ بنتا جا رہا ہے۔ ایسا ٹریفک کی لمبی قطاروں سے بچنےاور اپنی منزل پر جلد پہنچنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

ایران میں بھی برطانیہ کی طرح نجی ایمبولینسوں کو سخت قوانین کے تحت کام کرنے کی اجازت ہے (اے ایف پی)

ایران کی اشرافیہ میں ایمبولینس کے ذریعے سفر کرنا ایک مشغلہ بنتا جا رہا ہے۔ ایسا ٹریفک کی لمبی قطاروں سے بچنےاور اپنی منزل پر جلد پہنچنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

اسلامی جمہوریہ کی ایک نجی ایمبولینس سروس کے سربراہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ فلمی ستاروں اور دولت مند اساتذہ ان کی ایمبولینسوں کا استعمال کرتے ہیں۔

ڈاکٹر مجتبیٰ لہراسبی نے منگل کو ایران کی سٹوڈنٹ نیوز ایجنسی کو بتایا: ’تہران کی پولیس زیادہ مصروف ہونے کے باعث اس غیر قانونی رجحان کو ختم نہیں کر پا رہی۔‘

لہراسبی نے اس بات پر زور دیا کہ ٹریفک سے بچنے کے لیے ایمبولینس کا استعمال صرف فلمی اداکاروں اور اساتذہ تک ’محدود نہیں‘ ہے۔ لیکن انہوں نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ کن اور لوگوں کی جانب سے اس طبی سفری سہولت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

ایران میں بھی برطانیہ کی طرح نجی ایمبولینسوں کو سخت قوانین کے تحت کام کرنے کی اجازت ہے۔ کوئی بھی ایمبولینس ’کسی زخمی یا بیمار شخص یا کسی معین کردہ طبی ذمہ داری کے بغیر‘ سفر نہیں کر سکتی۔

اپنے انٹرویو میں لہراسبی نے ان قوانین پر عمل نہ ہونے کی وجہ نہیں بتائی۔ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ پولیس ’بہت زیادہ مصروف ‘ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن ان کے مطابق یہ مسئلہ اتنا سنگین نہیں ہے جتنا بتایا جا رہا ہے۔

ایران میں گھر جا کر ٹیوشن پڑھانے والے اساتذہ کو بچوں کو یونیورسٹی کے داخلہ اور قومی امتحانات کی تیاری کروانے کے لیے بھاری رقوم ادا کی جاتی ہیں۔ اس سروس کے غیر قانونی استعمال میں یہ اساتذہ سرفہرست ہیں۔

سوشل میڈیا صارفین نے اس رجحان پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا: ’ایران میں ہر چیز ہی الٹی ہے۔ مولوی دانشور ہیں، دانشور بے روزگار ہیں، عذ خواہ وزیر خارجہ ہیں، ایمبولینس وی آئی پی ٹیکسیاں ہیں اور ٹیکسیاں ہوٹل بن چکی ہیں۔‘

تہران کے پراسیکیوٹر جنرل نے ایمبولینسوں کے اس غلط استعمال کو روکنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا