بی ایس او: جہاں اختلاف ہی جان لیوا بن گیا

اگر یہی صورت حال رہی تو آنے والی نسلوں میں ایک فکری اور تحریری سوچ کا فقدان جنم لے سکتا ہے اور یہ بلوچ قوم کے حق میں کافی خطرناک ثابت ہو گی۔

بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن بلوچ طلبہ اور بلوچستان کے لوگوں کے معاشی، ثقافتی اور سماجی استحصال کو ختم کرنے کے لیے میدان میں اتری تھی (اے ایف پی)

تنظیمیں بنتی اور ٹوٹتی کیوں ہیں؟ فکری نظریے کا اختلاف یا پھر طریقہ کار و نصب العین سے فکری اختلاف کے سبب تنظیمیں ٹوٹتی اور بکھرتی ہیں۔ غرض یہ کہ ٹوٹنے اور جڑنے کا عمل مختلف عوامل کے سبب ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ مگر یہی ایک واضح فرق عیاں ہوتا ہے کہ جڑنے کا عمل نظریے کی بقا اور مستقبل کی روشنی کی لہر ساتھ لے کر ابھرتا ہے جب کہ ٹوٹنے کا عمل ایک عارضی سوچ کا دامن پکڑے ذاتی تقاضے ہوتے ہیں۔

بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی شاخیں بھی تنظیمی سطح پہ بہت ہی گہری تعمیر ہوئی تھیں۔ اس کی بنیاد سنہ 1961 میں رکھی گئیں جو ابتدائی مراحل میں تعلیمی شعور کو عام کرنے کے حامی تھے۔ تقریباً تین سال کے دورانیے میں جب عبدالحکیم بلوچ اس تنظیم کے سربراہ تھے تو بلوچی لٹریچر و سیاسی تربیت کو خاصا فروغ ملا۔ دوسری جانب کراچی میں بلوچ سٹوڈنٹس ایجوکیشنل آرگنائزیشن بھی تعلیمی، سیاسی، سماجی اور جاگیردارانہ طرز حکمرانی کے خلاف اپنی جہدوجہد کے ابتدائی مراحل طے کر رہی تھی اور مکران میں مکران سٹوڈنٹس فیڈریشن بھی نظام کو بدلنے اور بلوچ سٹوڈنٹس کے حقوق و زبان کے فروغ کے لیے اپنا کردار بخوبی ادا کر رہی تھی۔

25 نومبر1967 کو ان تمام تنظیموں کا انضمام ہوا اور اس سے پیدا ہونے والی تنظیم کی نئی پہچان بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن یعنی بی ایس او کے طور پر ہوئی۔ ابتدائی مراحل میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا منشور بلوچ طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پہ متحد کرنا، جہالت و ناخواندگی کو دور کرنا، بلوچوں کی قومی خودارادیت کے اصول، ملکی و بین الاقوامی سطح پر ترقی پسند طلبہ تنظیموں کی جاری تحریکوں کے ساتھ فکری و عملی یکجہتی، سامراجی و عسکری جنگجویانہ پالیسیوں، فرقہ واریت اور قبائلیت پسندی سے پاک اور آزاد جمہوری سماج کا قیام شامل تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن بلوچ طلبہ اور بلوچستان کے لوگوں کے معاشی، ثقافتی اور سماجی استحصال کو ختم کرنے کے لیے میدان میں اتری تھی۔ اس نے بہت جلد ہی بلوچستان کے طول و عرض میں خاصی اہمیت حاصل کر لی۔ بی ایس او 70 کی دہائی میں بلوچستان کے طلبہ کی واحد تنظیم رہ گئی تھی۔ بی ایس او کی ساخت اور اس کا منشور فطری طور پر ایک گہرے نظریے سے منسلک تھے مگر نظریات کو تقویت و سرشاری بی ایس او کے منتخب نمائندوں کی وجہ سے تھی۔

1972 میں پاکستان جب ترقی کے کچے پکے راستوں پہ گامزن تھا تب بی ایس او کے مرکزی کونسل سیشن میں بی ایس او نے خیر جان بلوچ کو چیئرمین بنایا جب کہ ان کی کابینہ میں جونیئر وائس چیئرمین رازق بگٹی بھی شامل تھے جنہیں بعد ازاں چیئرمین خیر جان بلوچ کے روپوش ہونے کے سبب قائم مقام چیئرمین بنایا گیا۔ چیئرمین رازق کا کردار اور افکار اپنی مثال آپ تھے۔ گو کہ آج کی سیاست میں چیئرمین رازق ایک گم نام رہنما کے طور پر شمار ہوتے ہیں لیکن میری نظر میں رازق بگٹی اگر زندہ ہوتے تو آج بھی بلوچوں کے فیدل کاسترو ہوتے۔ بعض فہم سے عاری نوجوانوں نے چیئرمین رازق کو ہم سے ہمشہ کے لیے جدا کر دیا۔

چیئرمین رازق بگٹی نڈر انسان تھے، وہ حق و سچ کو بیان کرنے سے نہ گھبراتے اور نہ کتراتے تھے۔

وہ انٹرنیشنل یونین آف سٹوڈنٹس سے بھی منسلک رہے اور سب سے بڑھ کر جب انہوں نے بنگالیوں کے حق میں ریلی نکالی اور اس ریلی میں طلبہ کو ایک نعرہ دیا  ’بنگلہ دیش کو تسلیم کرو۔‘ اس نعرے کے بعد ان کی سوچ و نظر کی وجہ سے ان کو کافی تقویت ملی۔ وہ بی ایس او کو بلوچ ہم آہنگی کی بنیاد پر بلکل بھی نہیں دیکھتے تھے بلکہ وہ پاکستان کی بقا و وقار کے بھی حامی تھے۔ لیکن جب سن 1980 میں پھر بلوچوں کے خلاف آپریشن اور گرفتاریاں شروع ہوئیں تو بی ایس او کے کئی رہنما روپوش ہو گئے۔

جب جب ایک رہنما اسیری کے بعد رہا کیا گیا تب تب بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن زیادہ زور اور ولولے کے ساتھ میدان میں آئی۔ یہ وہی دور تھا جب بی ایس او کا ذکر عالمی سطح پہ ہونے لگا تھا اور نوجوان نسل کے اس تحریک کو خوب پذیرائی ملی تھی۔ مگر بی ایس او کی تباہ حالی کا بوجھ بلوچ قوم کے نصیب میں تھا۔ بی ایس او کے منشور میں ایسا کون سا صفحہ خالی رہ گیا جس نے اس تنظیم کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ بی ایس او کی ساخت پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے۔ اس بات کا جواب بی ایس او کی آج کی قیادت دے سکے گی کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے تنظیم روز بروز تباہ حالی کی طرف جا رہی ہے۔

وہ سٹڈی سرکلز جن کا ذکر زندانوں سے لے کر عالمی سطح پر ہونے لگا تھا ان کے انعقاد کیوں کر نہیں ہو پا رہے ہیں۔ اس کی وجہ آپسی رنجشیں، سطحی قیادت اور ذاتی مفادات ہیں۔ ان وجوہات نے بی ایس او کو لاتعداد ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔

دھڑہ بندی کے واقعات بی ایس او کے تاریخ میں اس کے وجود کے کچھ عرصے بعد ہی شروع ہوئے اور کبھی ختم نہیں ہوئے۔ اس کی ایک بڑی وجہ عدم برداشت تھی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرکار کے بابو لوگ اور سیاسی پارٹیوں کے کارندوں نے بھی ریاست کے ساتھ مل کے بی ایس او کے رہنماؤں کو سرگرداں کرنے میں موثر کردار ادا کیا۔ گو کہ آج تمام پارٹیوں کی خواہش ہے کہ بی ایس او منظم ہو تاکہ کسی نہ کسی طرح بلوچ قوم پرست سیاست کو فروغ دینے کے لیے کوئی مثبت اور خاطر خواہ نتائج حاصل کیے جاسکیں۔ لیکن ماضی میں ان کا کردار منفی رہا ہے۔ بی ایس او تقسیم کے بدنما داغ کو ہر کونسل سیشن کے بعد اپنے ماتھے پہ سجا دیا کرتا اور نظریات کے نام پر عہدے کے شوقین ایک دفعہ پھر ایک نیا بی ایس او بنا لیتے اور اس تماشے کو بلوچ ادیب، دانشور، سیاست دان دیکھتے رہے۔ تقسیم در تقسیم نے تنظیم کو اس کے وجود کی جنگ لڑنے پہ مجبور کر دیا۔

گویا 2002 کے بعد بلوچ نوجوانوں کو پھر سے ایک جذبات سے بھرا نعرہ ہاتھ لگ گیا اور خود کو ثابت کرنے کی اس ریس میں بلوچ قوم پرست سیاست کو جو دھچکا لگا اس کا مداوا شاید ممکن نہیں۔ قوم کے معمار اس جہدوجہد کو ایک جنگی شکل دینے میں کامیاب ہو گئے اور پھر یہ جنگ بلوچوں کے عظیم سپوتوں کو نوچ نوچ کر کھانے لگی۔ وہ روایتی اور کم عقل لوگوں کے ہاتھوں یرغمال ہوگئے اور ان سرکلز میں تنقید کسی بھی وقت آپ کو غدار، ایجنٹ اور دلال جیسے کسی بھی لقب سے نواز سکتی تھی، گویا تنقید جہاں زینت تھی اب جان لیوا بن گئی تھی۔ 

اس سفر کا اختتام بھی تقسیم کے ایک بدکردار داغ سے شروع ہوا۔ گویا بی ایس او پھر سے تین ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ کسی کا مطالبہ ساحل و وسائل تھے تو کسی کا آزادی اور کسی کو تعلیم چاہیے تھی۔ طریقہ کار بالکل جدا اور نفرت بھرا تھا۔ اس سوچ نے بی ایس او کو ایک کٹھن راہ پر لا کھڑا کیا اور وقت و حالات نے آج ثابت کر دیا کے بی ایس او کے رہنماؤں نے کچھ فیصلوں میں جذبات کا سہارا لیا جس کی وجہ سے اسے لوگوں سے جُڑنے میں مشکلات پیدا ہوئیں۔ جہاں طلبہ بی ایس او کا حصہ بنے میں فخر محسوس کرتے تھے وہاں آج والدین اپنے بچوں کو بی ایس او سے دور رہنے کا درس دیتے ہیں۔

بی ایس او کے آئین میں ایسا کچھ بھی تحریر نہیں جس کی وجہ انتشار ہو۔ اب اکتوبر 2018 کا واقعہ ہی لے لیں جب بی ایس او کے ایک دھڑے نے اپنے تین روزہ کونسل سیشن کا بند اجلاس بی ایم سی کوئٹہ میں طلب کیا لیکن بولان میڈیکل کالج میں یہ اجلاس ایک خونی منظر پیش کرنے لگا جب بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے اجلاس کو روکنے اور سیشن کو ناکام بنانے کے لیے تمام بلوچی روایات روند ڈالیں۔ اس سے ایک ایسی نفرت نے جنم لیا جس کا اندازہ آنے والے نسل کو ہو گا۔ اس کمیٹی میں شریک بعض غیربلوچ افراد نے منفی کردار ادا کیا۔

فیصلہ کچھ بھی ہو مگر اس دن بولان میڈیکل کالج میں قوم پرست سیاست نے اپنی آخری سانسیں لینا شروع کر دیں۔ یہ وہ ادارہ ہے جہاں مولوی عبدالحق، ڈاکٹر مالک بلوچ، حبیب جالب اور دیگر قوم پرست رہنما یکجا ہو کر بلوچ قومی سوال اور بلوچ تشخص و بقا کے حوالے سے سیمینار منعقد کرتے تھے۔ آج وہاں بلوچ بلوچوں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ یقیناً موت ہوئی ہوگی اس دن اس نظریے کی جس کے بانی حمید بلوچ تھے۔

اگر یہی صورت حال رہی تو آنے والی نسلوں میں ایک فکری اور تحریری سوچ کا فقدان جنم لے سکتا ہے اور یہ بات بلوچ قوم کے حق میں کافی ہولناک ثابت ہو گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ