’عدلیہ کا یہی فیصلہ ہو گا کہ مفتی عبدالقوی کو باعزت بری کیا جائے‘

پاکستان کی سوشل میڈیا سلیبریٹی قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے میں شریک ملزم مفتی عبدالقوی نے اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ عدالت کا فیصلہ ان کے حق میں ہی آئے گا۔

پاکستان کی سوشل میڈیا سلیبریٹی قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے میں شریک ملزم مفتی عبدالقوی نے اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ عدالت کا فیصلہ ان کے حق میں ہی آئے گا۔

انڈپینڈنٹ اردو کو ملتان میں انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے مقدمے کے علاوہ حال ہی میں وائرل ہونے والی اپنی ویڈیو اور ان کی زندگی پر سوشل میڈیا کے کردار پر بات کی۔

قندیل بلوچ قتل کے مقدمے کی گذشتہ ہفتے کی سماعت کے دوران قندیل بلوچ کے والدین نے مرکزی ملزمان اپنے دونوں بیٹوں کی معافی کا حلف نامہ جمع کرایا تھا جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔

شریک ملزم مفتی قوی سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے بھی والدین سے معافی کی استدعا کی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ ’معاف تو اس کو کیا جاتا ہے جس نے جرم کیا ہو۔ میں یا میرا وکیل ان سے معافی کی استدعا کریں تو اس کا معنی یہ ہو گا کہ ہم حقیقت کے خلاف جائیں۔‘

مفتی عبدالقوی آج کل ضمانت پر ہیں اور پر اعتماد ہیں کہ مقدمے کا فیصلہ انہی کے حق میں آئے گا۔ ان کے بقول ’کوئی شہادت موجود نہیں تھی۔ اس لیے جج صاحب نے میری ضمانت ایک منٹ میں دی۔ اب بھی ہمیں عدلیہ پر اعتماد ہے۔ عدلیہ جو بھی فیصلہ کرے گی، وہ یہی ہو گا کہ مفتی عبدالقوی کو ملوث کیا گیا ہے۔ ان کو باعزت بری کیا جائے۔‘

وہ آئے دن متنازعہ سیلفیوں یا انٹرویوز کی وجہ سے شہہ سرخیوں کی زینت بنتے رہتے ہیں اور سوشل میڈیا پر تنقید کا سامنا کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے باوجود مفتی قوی سوشل میڈیا کے مداح ہیں اور اسے احتسابی عمل کے لیے اہم قرار دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر تنقید سے وہ نہیں گھبراتے۔

’جن دنوں مجھ پر تھوڑی سی آزمائش آئی تھی۔ ان دنوں میں بھی میں مجسٹریٹ کے پاس مسکراتے ہوئے آتا بھی تھا اور جاتا بھی تھا۔ وہاں بھی بڑے سکون سے نمازیں پڑھتا تھا اور دس دس گھنٹے سوتا بھی تھا۔‘

اس سال کے آغاز میں مفتی قوی کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ کرنسی نوٹ نچھاور کرتے ہوئے دکھائی دیے۔

اس واقعے کی وضاحت میں انہوں نے کہا: ’پی ٹی آئی کے اہم دوست میاں ربان کے ساتھ کئی سالوں سے محبت کا تعلق ہے۔ ان کے بیٹے کی مہندی کی تقریب تھی۔ اس میں مختلف افراد اپنے فن کا اظہار کر رہے تھے۔ نادیہ ہاشمی صاحبہ اپنا کلام پیش کر رہی تھیں۔ ان کا تعلق ملتان سے ہے۔ میرے سامنے نوٹ رکھے ہوئے تھے۔ دیے بھی مجھے اس دولہے کے والد نے۔ اس صورتحال میں میں نے پیسے اٹھائے اور اٹھا کر نادیہ صاحبہ کے احترام میں ان کی طرف پھینک دیے۔‘

مفتی جیسا مذہبی اعزاز رکھنے والے عبدالقوی عوام الناس کے ساتھ اپنے غیر روایتی رویے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے بلکہ اپنے سماجی طور طریقوں پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو کو انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’چونکہ میں عمر کے اس حصے میں ہوں کہ ان کو میں اپنا بیٹا بیٹی سمجھ کے ان کا دل نہیں توڑتا۔ اسی طرح میں اب عمرے کی طرف گیا۔ تو لوگ اللہ کے گھر کا طواف چھوڑ کر مجھے آ کر سلام بھی کرتے تھے۔ مجھ سے آ کر ملتے بھی تھے۔ دعائیں بھی لیتے تھے اور میرے ساتھ سیلفی بھی بنواتے تھے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل