بھارتی حکومت کا آرٹیکل 370 پر موقف ابتدائی سماعت میں رد

سماعت کے دوران حکومت نے موقف اختیار کیا کہ کورٹ میں ایک نوٹس کے ذریعے اپنے فیصلے کی وضاحت جمع کروانے پر پاکستان اقوم متحدہ میں اسے استعمال کر سکتا ہے، تاہم اس موقف کو رد کر دیا گیا۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی فیصلے  پر خطے میں  غم و غصہ پاتا جاتا ہے، جہاں اب پولیس اور مقامی انتظامیہ وفاقی کنٹرول میں ہیں اور کشمیریوں کو فکر ہے کہ ان کی ثقافت اور آبادی کی شناخت  کو خطرہ ہے(اے ایف پی)

آرٹیکل 370 کے خاتمے اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دینے کے خلاف درخواستوں کی ابتدائی سماعت کے دوران بھارتی حکومت نے موقف اختیار کیا کہ کورٹ میں بذریعہ نوٹس اپنے فیصلے کی وضاحت جمع کروانے پر پاکستان اقوام متحدہ میں اسے زیر بحث بھارتی فیصلے کے خلاف استعمال کر سکتا ہے، تاہم اس موقف کو رد کر دیا گیا۔

بھارتی سپریم کورٹ نے بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف دائر پیٹیشنز سننا شروع کر دی ہیں اور بھارتی حکومت سے اس فیصلے کی وضاحت طلب کر لی ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بدھ کو بھارتی سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم جاری کیا کہ وہ اس معاملے پر کورٹ میں دائر 14 پیٹیشنز کے حوالے سے اپنے جواب جمع کروائے اور بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں جاری میڈیا پر پابندیوں کی وضاحت پیش کرے۔

سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ پانچ ججوں پر مشتمل بینچ اکتوبر سے اس معاملے پر سماعت شروع کرے گا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی سربراہی میں بھارتی حکومت نے پانچ اگست کو اپنے زیرانتظام کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم کر دی تھی اور ممکنہ جھڑپوں سے بچنے کے لیے وادی میں مکمل سکیورٹی لاک ڈاؤن اور مواصلاتی پابندیاں نافذ کر دی تھیں۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی فیصلے پر خطے میں غم و غصہ پاتا جاتا ہے، جہاں اب پولیس اور مقامی انتظامیہ وفاقی کنٹرول میں ہیں اور کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ ان کی ثقافت اور آبادی کی شناخت کو خطرہ ہے۔

بدھ کو سپریم کورٹ کی ابتدائی سماعت کے دوران حکومت نے موقف اختیار کیا کہ کورٹ میں ایک نوٹس کے ذریعے اپنے فیصلے کی وضاحت جمع کروانے پر پاکستان اقوم متحدہ میں اسے استعمال کر سکتا ہے۔ تاہم چیف جسٹس رانجن گوگوئی اور ان کے دو ساتھیوں نے حکومت کے اس موقف کو رد کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان پابندیوں میں آہستہ آہستہ نرمی لائی جا رہی ہے۔ کچھ کاروبار، کچھ لینڈ لائن فون اور کچھ سکول دوبارہ کھل رہے ہیں، تاہم سکولوں میں اساتذہ اور طالب علموں کی حاضری تاحال کم ہے۔

بھارتی اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے کہا کہ وہ ایک قانونی ادارے میں موجود ہیں اور ایسا کوئی نوٹس جمع کروانے کی ضرورت نہیں ہے۔

بھارتی نیوز ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق جج نے کہا: ’ہمیں پتہ ہے کہ کیا کرنا ہے، ہم نے آرڈر پاس کیے ہیں، ہم اسے بدلیں گے نہیں۔‘

کورٹ نے حکومت کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھسن کی پٹیشن کا بھی جواب دے جو کشمیر میں میڈیا کو آزادی سے کام کرنے کے لیے تمام مواصلاتی نظام بحال کرنے کی حمایت کرتی ہے۔

27 ستمبر کو پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خطاب متوقع ہے جہاں وہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کو اجاگر کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔

اسلام آباد میں پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بدھ کو بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنے زیر حراست تمام کشمیری رہنماؤں اور بے گناہ افراد کو آزاد کرے اور وادی میں نافذ کرفیو ختم کرے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ بھارت اقوام متحدہ کے مبصروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لینے دے۔

صحافیوں سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ ’وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے شیدد دباؤ میں ہے‘ اور ’دیکھنا یہ ہے کہ عدلیہ اس معاملے پر دائر شدہ 14 پٹیشنز میں انصاف کے تقاضے پورے کرتی ہے یا نہیں۔‘

واضح رہے کہ سپریم کورٹ جن 14 درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے ان میں انورادھا بھسن کے علاوہ بھارت کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے رہنما سیتا رام یچوری، کانگریسی رہنما تحسین پوناوالا، کشمیری سیاستدانوں اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طالبعلم رہنما شہلا رشید کے علاوہ چند بھارتی سرکاری ملازمین کی جانب سے دائر شدہ درخواستیں بھی شامل ہیں۔

ان درخواستوں میں جہاں بھارتی آئین کی شق 370 کے خاتمے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے وہیں خطے میں اس فیصلے کی وجہ سے جاری کرفیو، ذرائع مواصلات کی بندش اور بنیادی انسانی حقوق متاثر ہونے کی بات بھی کی گئی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان