میں للو بھی چلاؤں گی اور اپنا رشتہ بھی خود ڈھونڈوں گی!

اس دنیا میں مسز خان کے علاوہ رشتے کروانے والے ایک انکل بھی موجود ہیں جن کے خیالات ان سے بالکل الگ ہیں۔ ان سے ملاقات کا ایک قصہ پڑھیے۔

اگر ہم کہتے ہیں کہ لڑکے لڑکیاں برابر ہیں تو ہم لڑکے دیکھنے کیوں نہیں جاتے؟

میرے گھروالوں سے اگر پوچھیں کہ میری شادی کیوں نہیں ہوئی تو وہ شاید آگے سے یہی کہیں کہ میں ضدی ہوں۔ کسی کی بات نہیں سننا چاہتی۔ میرے اندر انا کا مسئلہ ہے۔ مسز خان کے الفاظ میں میری للو بہت چلتی ہے۔ یوں سمجھیں کہ میں ایک عام مڈل کلاس پاکستانی فیملی کا برا خواب ہوں۔ میں ایک فیمنسٹ ہوں۔

لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ مجھے بچپن سے شادی کرنے کا بہت شوق ہے۔ جب میں اپنے فیمنسٹ دوستوں کو ایک اچھی شادی شدہ زندگی بسر کرتے دیکھتی ہوں تو میرا یقین مزید پختہ ہوجاتا ہے۔ ہم خیال جیون ساتھی کس کو نہیں چاہیے؟ جو آپ کے مستقبل کو اتنی ہی اہمیت دے جتنی آپ اس کے مستقبل کو دیں۔ ایسا مرد جو شادی کا رشتہ برابری سے نبھائے۔

جب میری ایک سہیلی کو پتہ چلا تو اس نے اپنی سی کوشش کی اور مجھے اپنے خالو کے بارے میں بتایا جو رشتہ کرواتے ہیں۔ میں نے رشتہ آنٹی تو دیکھی تھیں لیکن رشتہ انکل میرے لیے ایک نیا تصور تھا۔ میری دوست کے مطابق یہ رشتہ انکل موجودہ دور کی عورت کے لیے رشتہ ڈھونڈتے ہیں۔ جو اپنی للو کا استعمال ڈرکے بغیر کرتی ہیں۔ دوست نے یہ بھی بتایا کہ ان کی بیٹیاں کافی ماڈرن ہیں۔ بغیرآستینوں والی قمیصیں پہن لیتی ہیں۔ سلیولیس پہننے والا گھرانا مجھ جیسی آزاد خیال فیمنسٹ عورت کے لیے ایک اچھی علامت ہے۔

اس کے علاوہ میری دوست نے یہ بتایا کہ رشتہ انکل ایک ٹریول ایجنسی چلاتے ہیں۔ رشتے بنوانا ان کا شوق ہے۔ اس کام کا یہ کوئی معاوضہ نہیں لیتے۔ مفت کی میچ میکنگ سروس سے اچھی کیا بات ہوسکتی ہے؟ اپنی دوست کی باتیں سن کر میں رشتہ انکل سے ملنے کے لیے آمادہ ہوگئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میں نے اپنی ایک اور شادی شدہ دوست کے ساتھ پلان بنایا اور ہم دونوں ان کے دفتر گئے۔ یہ واحد رشتہ انکل تھے جنہوں نے میری کہانی سنی اور سمجھی۔ مجھے ذرا بھی عجیب محسوس نہ ہونے دیا کہ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں لڑکیوں کی حیا ہی سب کچھ ہے ایک لڑکی خود اپنا رشتہ ڈھونڈنے آئی ہے۔

جب میں انکل کے دفتر میں داخل ہوئی تو انہوں نے مجھے بہت احترام سے بٹھایا۔ ہم نے تھوڑی دیر یہاں وہاں کی باتیں کیں۔ انہوں نے میری تعلیم اور کام کے حوالے سے چند سوالات پوچھے۔ پھر ہم مدعا پر آگئے۔

انکل نے مجھ سے پوچھا کہ میں کس طرح کے شوہر کی تلاش میں ہوں۔ پہلے تو مجھے بےحد شرم آئی۔ لیکن میں نے پوکر فیس (سپاٹ چہرہ) بنایا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اور کہا کے مجھے ایک آزاد خیال انسان کی تلاش ہے جو مجھ پررعب نہ جمائے۔ جو زندگی میں آگے بڑھنا چاہتا ہو۔

مجھے کام کرنے میں بہت مزا آتا ہے۔ میں اپنے کرئیر میں بہت آگے جانا چاہتی ہوں۔ اور میں یہی چاہوں گی کہ میرا ہم سفر بھی اپنے کام سے اتنا ہی لگاؤ رکھے۔ جو صرف نوکری کی خاطر نوکری نا کرے۔ یہ سن کر انکل نے مجھے حیرانی سے دیکھا اور خوش ہوتے ہوئے کہا۔ ارے! آپ تو بالکل میری بیٹی کی طرح باتیں کرتی ہیں! یہ سن کر میں بھی بہت خوش ہوئی اور لگا کہ شاید یہاں میری آواز بہتر طریقے سے سنی جائے گی۔

پھر میں نے انکل کو بتایا کہ میں اپنے پیسے خود کمانا چاہتی ہوں۔ کسی کی دست نگر ہو کے بیٹھی نہیں رہنا چاہتی کہ وہ آئیں گے اور مجھے پیسے دیں گے۔ یا اپنی گاڑی میں مجھے کہیں لے کر جائیں گے یا میرے پیسوں کا حساب کتاب کریں گے۔ یہ سب باتیں میں ڈرتے ڈرتے ہی انکل کو بتا رہی تھی۔

مجھے ڈر تھا کہ انکل مجھ پر مسز خان جیسی چڑھائی نہ کردیں۔ لیکن انکل تو بڑے ہی آزاد خیال نکلے۔ اور مجھ سے دوبارہ کہا، ارے! میری بیٹی بھی یہی کہتی ہے!

اسی طرح میں نے کئی باتیں شئیر کریں۔ لیکن ایک بات جو مجھے سب سے زیادہ پسند آئی کہ انکل نے مجھ سے دبے لفظوں بچے پیدا کرنے اور جسمانی حقوق کے حوالے سے میری رائے پوچھی۔

انہوں نے یہ بات کچھ اس طرح چھیڑی۔ آج کل کے کچھ نوجوان بچے نہیں پیدا کرنا چاہتے۔ میں کچھ اس طرح کے کپلز کو جانتا ہوں۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

یہ سن کر ہی میں انکل کی شکل دیکھتی رہ گئی۔ ہمارے معاشرے میں اور خاص کر رشتہ کرانے والے یہ کہاں جاننا چاہتے ہیں کہ اگلے کو بچے پیدا کرنے ہیں کہ نہیں۔ ہمارے ہاں تویہ عام سی بات ہے۔ کہ اگر عورت ہے تو ماں تو بننا چاہے گی ہی۔ لیکن میں ایسی سوچ نہیں رکھتی۔ مجھے بچے پیدا کرنے کا کوئی خبط نہیں ہے۔ میں اپنے آپ کو ہی پال لوں بہت ہے میرے لیے! بہرحال میں نے انکل کو منہ پھٹ ہو کر یہ سب نہیں کہا۔ صرف اتنا کہا کہ اگر وہ کوئی ایسا انسان ڈھوںڈ سکتے ہیں جو مجھ سے اس بارے میں بات کرنا چاہے تو کیوں نہیں۔

اب بات کرتے ہیں اس پورے رشتہ پروسیس کی ۔ پاکستان میں کئی گھرانوں میں ایک روایت ہے۔ اس میں رشتہ کے لیے لوگ لڑکی دیکھنے آتے ہیں۔ باقیوں کا تو پتہ نہیں لیکن مجھے اس پریڈ میں بہت زیادہ صنفی عدم مساوات نظر آتی ہے۔ اگر ہم کہتے ہیں کہ لڑکے لڑکیاں برابر ہیں تو ہم لڑکے دیکھنے کیوں نہیں جاتے؟ یہ کون سی بات ہوئی کہ لڑکی دیکھنے جا رہے ہیں؟ لڑکی کیا کوئی شو پیس ہے یا عجائب گھر میں رکھا آئٹم جسے دیکھنے جایا جاتا ہے؟

اور دوسری بات، اس یک طرفہ میٹ اینڈ گریٹ کے انتظام کی ساری ذمہ داری لڑکی کے گھروالوں کی ہوتی ہے۔ مزے مزے کے کھانوں کی میز بھی وہ سجائیں، پیسے وہ خرچ کریں، گھر وہ سجائیں، مہمان داری بھی وہی کریں۔ لڑکے والے بس آئیں اور کھا پی کر چلے جائیں۔ بعد میں بغیر کوئی وجہ بتائے کہہ دیں کہ جی معذرت۔ اور لڑکی والے پھر سوگ میں چلے جائیں کہ آخر نہ کیوں ہوئی۔ ہماری لڑکی میں ہی کوئی خامی ہوگی!

لیکن ان رشتہ انکل کا انداز کچھ الگ ہے۔ یہ اکثر خود دعوت وغیرہ رکھتے ہیں اور اس میں لڑکوں اور لڑکیوں کو ان کے گھر والوں سمیت بلاتے ہیں۔ پھر مہمان نوازی کرتے کرتے ہی آپ کی توجہ ان لوگوں کی جانب کرتے ہیں جو رشتوں کی تلاش میں ہوں۔ اور کہتے ہیں کہ اگر سمجھ آئے تو بتانا ہم بات کرسکتے ہیں۔

اگر آپ کو تھوڑی بات چیت کہ بعد اگلا بندہ سمجھ آئے تو انکل معملہ آگے بڑھاتے ہیں اور دونوں پارٹیز کی حامی کے ساتھ موبائل نمبروں کا تبادلہ کروا دیتے ہیں۔ بعد میں پھر لڑکا اور لڑکی کی فیملیز طے کرتی ہیں کہ آگے بڑھنا ہے کہ نہیں۔

رشتہ انکل کے اس طریقے میں لڑکی والوں پر سے بوجھ ہٹ جاتا ہے۔ لڑکی کی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اور دونوں لڑکا لڑکی کو پرائیویسی مل جاتی ہے۔ والدین اور دیگر گھروالوں کا دباؤ ہٹ جاتا ہے۔

ان رشتہ انکل سے بات کر کے میں خوب محظوظ ہوئی۔ انکل کومیں نے اپنے اور بھی کئی نظریات بتائے۔ اور انہوں نے تقریباً ہر بات پر یہی کہا کہ ارے! میری بیٹی بھی ایسے باتیں کرتی ہے، آپ اس سے ضرور ملیں!

اچھا لگا کہ انہوں نے مجھے اپنی بیٹی کی طرح سمجھا اور اس بات کا پورا کریڈٹ ان کی بیٹی کو جاتا ہے۔ اس معاشرے میں فیمنسٹ ہونا مسز خان ٹائپ خواتین ہونے سے زیادہ مشکل ہے۔ بہرحال، ابھی تو میں سنگل ہوں اور خوش بھی ہوں، لیکن رشتہ انکل سے یہ ملاقات مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ