فضائی حدود بند کرنے سے بھارت کو کتنا نقصان ہوگا؟

پاکستان کی جانب سے فضائی حدود کی ممکنہ بندش سے بھارت کو زیادہ نقصان ہوگا یا خود پاکستان کو، اور جواب میں بھارت کے پاس کیا آپشن موجود ہیں؟

پابندی کی صورت میں بھارت سے اڑنے والے یا باہر سے بھارت جانے والی مسافر یا کارگو پروازوں کو پاکستانی فضائی حدود سے باہر رہنا ہو گا (اے ایف پی)

بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر پاکستان نے بھارت سے آنے اور وہاں جانے والی شہری تجارتی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کرنے کے امکان کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے منگل کو ایک ٹویٹ میں کہا تھا: ’وزیر اعظم عمران خان بھارت کے لیے پاکستان کی فضائی حدود بند کرنے پر غور کر رہے ہیں۔‘

بھارت نے پانچ اگست کو اس کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ جس پر پاکستان اور کشمیری سراپا احتجاج ہیں۔

دہلی کے اس متنازع فیصلے کے بعد پاکستان نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کرنے کے علاوہ اسلام آباد میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر اجے بیساری کو بھی واپس بھیج دیا تھا۔

پاکستانی قیادت کو بھارت کے لیے اپنی فضائی حدود بند کرنے کا خیال شاید اس وقت آیا جب چند روز قبل اسلام آباد کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے جہاز کو فرانس جاتے ہوئے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینا پڑی تھی۔

تاہم یاد رہے کہ بھارت کے لیے پاکستانی فضائی حدود کی بندش پہلی مرتبہ نہیں ہو گی۔ اس سے قبل اسلام آباد نے ایسا ہی اقدام اس سال فروری میں بھارتی طیاروں کی پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں بمباری کے بعد اٹھایا تھا اور پابندی چار ماہ کے عرصے تک جاری رہی تھی۔

فضائی حدود کی پابندی سے کیا مراد ہے؟

کسی ملک کی فضائی حدود سے مراد فضا کا وہ حصہ ہے جو اس ملک کی سر زمین اور سمندر کے اوپر واقع ہو۔

اگر پاکستان بھارت کے لیے اپنی فضائی حدود بند کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو ایسی صورت میں بھارت کے کسی بھی حصے (ائیر پورٹ) سے اڑنے یا دنیا کے کسی ملک سے اڑ کر بھارت (کے کسی بھی ائیر پورٹ) جانے والی کسی شہری تجارتی پرواز کو پاکستانی فضائی حدود میں سے گزرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

شہری تجارتی پروازوں میں مسافروں یا تجارتی سامان (کارگو) کو ہوائی جہازوں میں ایک سے دوسری جگہ لے جایا جاتا ہے۔

دفاعی امور کے تجزیہ کار ائیر وائس مارشل (ریٹائرڈ) شاہد لطیف نے کہا کہ پاکستان کو فوراً اپنی فضائی حدود بھارت کے لیے بند کر دینا چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اس میں کوئی قانونی پیچیدگی نہیں ہے اور کوئی ایسا قانون نہیں ہے جو ہمارے ملک کو اس سے روک سکے۔‘

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’مجھے خطرہ ہے کہ بھارت ہماری فضائی حدود میں تجارتی پروازوں کی آڑ میں کوئی شرارت کر سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں یہ قدم فوراً اٹھا لینا چاہیے۔‘

پابندی سے بھارت کو کیا نقصان ہو گا؟

پابندی کی صورت میں بھارت سے اڑنے والے یا باہر سے بھارت جانے والی مسافر یا کارگو پروازوں کو پاکستانی فضائی حدود سے باہر رہنا ہو گا اور ایسا کرنے کے لیے انہیں لمبہ راستہ اپنانا پڑے گا۔

جس کی وجہ سے ان پروازوں کا نہ صرف دورانیہ بڑھ جائے گا بلکہ ایندھن بھی زیادہ خرچ ہو گا اور ائیر لائنز کو مسافروں اور سامان کے کرائے بھی بڑھانا پڑیں گے۔

بھارت کے مشہور اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق وہ پروازیں جو پاکستان کی فضائی حدود میں سے گزرتی ہیں کا پابندی کی صورت میں دورانیہ اوسطا 70 سے 80 منٹ بڑھ جائے گا۔

پاکستان کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ایک سینئیر اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستانی فضائی حدود میں 11 ایسے راستے ہیں جو بھارت آنے یا جانے والے جہاز استعمال کرتے ہیں۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق بھارت کی سرکاری ائیر لائن ائیر انڈیا کی کم از کم 50 پروازیں روزانہ پاکستان کی فضائی حدود میں سے گزرتی ہیں۔

روئٹرز کو تحقیق سے پتا چلا کہ گذشتہ پابندی کے دوران بھارت کی کم از کم 113 پروازیں ایسی تھیں جنھیں مستقل طور پر لمبے راستے سے آنا جانا پڑتا تھا۔

بھارت سے دنیا کے مغربی حصوں کو جانے والی تقریباً تمام پروازیں پاکستان پر سے گزر کر جاتی ہیں اور پابندی کی صورت میں بھارت اور یورپ، امریکہ اور مشرق وسطی کے درمیان چلنے والی بھارتی پروازیں متاثر ہوں گی۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق بھارت کے شمال میں واقع شہروں جیسے دلی، امرتسر، چندی گڑھ، جے پور اور لکھنو سے یورپ، شمالی امریکہ اور مغربی ایشیا کے ممالک کو جانے والی پروازوں کو جنوب میں گجرات یا مہاراشٹرا سے ہو کر دائیں طرف بحیرہ عرب کی طرف مڑنا پڑے گا۔

بھارت کے سول ایوی ایشن کے وزیر ہردیپ سنگھ پوری نے گذشتہ مہینے راجیہ سبہا (بھارتی ایوان بالا) کو بتایا تھا کہ چار ماہ کی پاکستانی فضائی پابندی کی وجہ سے ملک کی ہوا بازی کی صنعت کو 430 کروڑ بھارتی روپوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔

پاکستان کو کیا نقصان ہو گا؟

اگر بھارت کے لیے پاکستانی فضائی حدود میں داخلے پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے تو اس سے خود پاکستان کو بھی مالی نقصان ہو گا۔ تاہم پاکستان کو ہونے والا نقصان بھارت کو پہنچنے والے نقصان سے کئی گنا کم ہو گا۔

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سول ایوی ایشن غلام سرور خان نے چند روز قبل میڈیا کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ پلوامہ واقعے کے بعد بھارت پر لگائی گئی فضائی پابندی کے باعث سول ایوی ایشن اتھارٹی کو ساڑھے آٹھ ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔

سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سینئیر اہلکار کا کہنا تھا کہ پلوامہ واقعے کے بعد لگائی جانے والی پابندی جزوی تھی اور اگر مستقل اور مکمل پابندی لگا دی جاتی ہے تو نقصانات کا تخمینہ کئی گنا زیادہ ہو سکتا ہے۔

سول ایوی ایشن اتھارٹی کے اہلکار نے بتایا کہ کسی ملک کی فضائی حدود میں سے جہاز کے گزرنے کی صورت میں ائیر لائن اس ملک کو معاوضہ ادا کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ معاوضہ (اوور فلائنگ چارجز) فی کلومیٹر کے حساب سے ہوتا ہے اور جو جہاز جتنے کلومیٹر کسی ملک کی فضائی حدود میں سفر کرتا ہے اسی حساب سے ائیر لائن کو معاوضہ ادا کرنا ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دنیا بھر کی ائیر لائنز کی روزانہ کم از کم 12 سو پروازیں پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرتی ہیں اور یہ پاکستان کے لیے زر مبادلہ کمانے کا بہترین ذریعہ ہے۔

پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے والی ان 1200 پروازوں میں اچھی خاصی تعداد ان پروازوں کی ہے جو یا تو بھارت سے اڑتی ہیں اور یا بھارت کے کسی ائیر پورٹ پر اترتی ہیں۔

بھارتی پروازوں پر پابندی کی صورت میں پاکستان کو بھارت سے آنے اور وہاں جانے والی پروازوں کے فلائی اوور چارجز سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے ایک نجی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں کہا کہ ’گو کہ بھارت کے لیے اپنے فضائی راستے بند کرنے سے پاکستان کو نقصان تو ہو گا۔ لیکن یہ درست قدم ہے۔‘

کیا بھارت پاکستان پر پابندی لگائے گا؟

پاکستان کی جانب سے بھارت پر فضائی حدود کی بند ش کے ردعمل میں دلی بھی ایسی پابندی عائد کر سکتا ہے۔

ایسی صورت میں پاکستان اور مشرقی دنیا کے ملکوں کے درمیان چلنے والی پروازیں متاثر ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ پاکستان اور مشرقی ممالک کے درمیان چلنے والی اکثر پروازیں بھارت کے اوپر سے ہو کر گزرتی ہیں۔

ہوا بازی کی صنعت سے منسلک ماہر محمد حنیف کہتے ہیں: ’ان پابندیوں سے پروازوں کا پورا نیٹ ورک متاثر ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور مشرق بعید کے ممالک بشمول تھائی لینڈ، جاپان، انڈونیشیا وغیرہ اور حتیٰ کہ آسٹریلیا کے درمیان آپریٹ کرنے والی پروازیں بھارتی پابندی سے متاثر ہوں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان پروازوں کا دورانیہ بڑھے گا اور کرائے مہنگے ہو جائیں گے۔

فضائی پابندی کے علاوہ بھارت کسی دوسرے طریقے سے بھی اپنے ردعمل کا اظہار کر سکتا ہے۔

بھارتی ایوان بالا کے رکن سبھرا مانین سوامی نے ایک ٹوئٹر پیغام میں نریندر مودی حکومت کو مشورہ دیتے ہوئے کہا: ’اگر پاکستان ہماری سول اور تجارتی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کرتا ہے تو بھارت کو بحیرہ عرب جانے والے جہازوں کو روک کر کراچی کی بندرگاہ کو بند کر دینا چاہیے۔‘

تاہم محمد حنیف کا خیال تھا کہ بھارت پاکستان کی جانب سے پابندی کے جواب میں کسی قسم کا کوئی ردعمل نہیں دکھائے گا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت شاید کسی صورت اپنی فضائی حدود پاکستان کے لیے بند نہ کرے۔ کیونکہ اس سے انہیں بہت زیادہ مالی نقصان پہنچے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان