ہسپتال میں 8 روز سے بیٹے کی راہ تکنے والے چاچا کی کہانی

چاچا میری طرف اور میں چاچا کی طرف دیکھ رہی ہوں۔ بزرگ کو اب شاید حالات کا اندازہ ہوگیا ہے اور وہ اپنے بیٹے کے لیے پریشان ہو رہے ہیں۔ ہزاروں افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ہم نے بھی ان دنوں خوب ڈکٹیٹر شپ کا تجربہ حاصل کیا۔ نعیمہ احمد مہجور کی ڈائری

سری نگر کے انچار صورہ علاقے میں ایک بچہ مکان کی کھڑکی سے احتجاج میں حصہ لیتے ہوئے۔ (اے ایف پی)

تیرہ اگست 2019، سری نگر

میں سری نگر کے ایس ایم ایچ ایس ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں ایک بزرگ مریض کے بستر کے قریب بیٹھی ہوں۔ وہ اکیلے کراہ رہے ہیں مگر آنکھیں دروازے پر مرکوز ہیں۔ بازو میں ڈرپ لگا ہے۔ بیڈ کے ایک طرف کیتھٹر کا بیگ پیشاب سے بھرگیا ہے شاید نرس اس کو خالی نہیں کر پائی ہیں۔

مریضوں کے لیے بستر نہیں ہیں لہذا بعض نیچے بیٹھے ہیں اور ہر چند منٹ کے بعد ایک مریض داخل ہو رہا ہے۔ میں بزرگ مریض سے پوچھتی ہوں، چاچا میں کچھ مدد کرسکتی ہوں؟ اس کی آنکھوں سے پانی برسنے لگتا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے آٹھ روز سے بیٹے کا انتظار کر رہا ہوں۔ اس نے کہا تھا گھر سے کھانا لاؤں گا، تب سے غائب ہے۔ کیا باہر حالات ٹھیک ہیں؟ کچھ شاید ٹھیک نہیں ہے۔ ڈاکٹر سے پوچھتا ہوں تو وہ میری بات کا جواب نہیں دے رہے ہیں۔ مجھے پہلے روز کہا گیا تھا کہ دوسرے وارڈ میں شفٹ کریں گے ہوسکتا ہے ڈاکٹر میرے بیٹے کا انتظار کر رہے ہیں۔

وہ بات کرتے کرتے رک گئے جب ایک تھکی ہاری نرس کیتھٹر کو خالی کرنے کے لیے آئی۔ وہ میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی ہیں اور پوچھنے لگتی ہیں۔’ کیا کچھ کہیں سے پتہ چلا؟ حالات انتہائی خراب ہیں کب تک یہ پابندیاں عائد رہیں گی؟ مریضوں کا صحیح علاج کیسے ہوگا جب ڈاکٹر اور دوسرا عملہ نہیں پہنچ پا رہا ہے؟ ایمبولینس کو مریضوں کی بجائے ڈاکٹر اور نرسیں لانے کے لیے رکھا گیا ہے۔ میرا پانچ سال کا بیٹا ہے چار روز سے اس کو دیکھا نہیں۔‘

وہ دو زانوں بیٹھ کر کیتھٹر سے پیشاب بڑے پین میں ڈال رہی تھی اور بنا میری طرف دیکھے بولے جا رہی ہے۔ ’ہسپتال میں موجود ادویات محض چند روز کے لیے ہیں۔۔۔کتنی بڑی سزا ہی یہ ۔۔۔۔‘ میں اس کو ذرا جھنجھوڑ رہی ہوں اور وہ مریض سے پوچھنے لگتی ہے ’چاچا یونہی پریشان ہو رہے تھے کہ آپ کو شاید گھر والے ہسپتال میں بے یارو و مددگار چھوڑ کے گئے ہیں۔ چاچا اب اپنی بیٹی کو دیکھ کر مطمئن ہیں؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چاچا میری طرف اور میں چاچا کی طرف دیکھ رہی ہوں۔ وہ اپنی آنکھیں جھکا لیتے ہیں۔ بزرگ کو اب شاید حالات کا اندازہ ہوگیا ہے اور اب اپنے بیٹے کے لیے پریشان ہو رہے ہیں۔ ہزاروں افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ہم نے بھی ان دنوں خوب ڈکٹیٹر شپ کا تجربہ حاصل کیا۔ پہلے ہم سنتے تھے لیکن آج ہم بھی بھگت رہے ہیں۔ نہ جانے میرے سامنے  پاکستانی آمر ضیاء الحق کا چہرہ کیوں گھوم رہا ہے۔۔۔۔ ہوسکتا ہے مودی اس کا پنر جنم ہو۔

ساتھ والے بیڈ پر ایک آٹھ سالہ بچی کراہ رہی ہے۔ ڈاکٹر کئی بار اس کو دیکھ رہے ہیں مگر شاید ابھی تشخیص نہیں ہو پا رہی۔ بچی کو یہاں آنچار علاقے سے سکوٹی پر پہنچا دیا گیا ہے۔ جب وہ اپنی ماں کے ساتھ صحن میں تھی کہ باہر احتجاجی جلوس کو روکنے کے لیے سکیورٹی فورسز نے آنسو گیس اور ہوائی فائرنگ کی تھی۔ یہ بچی دمے کے مرض کا شکار ہیں۔ وہ صحن میں ہی سر چکرانے سے گر گئی تھی اور ماں ماتم کرتے ہوئے پڑوسی کے گھر مدد کے لیے پہنچی جس نے سکوٹی پر دونوں کو بٹھا کر ہسپتال پہنچا دیا تھا۔

ڈاکٹروں نے ایکو کرنے کا بھی مشورہ دیا شاید دل کا عارضہ بھی ہوگیا ہے۔ والد بنگال میں شال بافی کر رہے ہیں اور ان سے رابطہ منقطع ہے۔ بچی کی ماں سرگوشی میں کہہ رہی ہے ’اتنا ظلم اسرائیل بھی نہیں کرتا ہوگا جتنا ہندوستان نے ہم پر کیا ہے۔ کاش مودی کی اولاد ہوتی تو درد کا اندازہ ہوتا۔ میری بچی زندہ رہے یا نہ رہے لیکن ایک روز مودی کو کشمیر کے ان معصوم، کراہتے اور محصور بچوں کی بددعا ضرور لگ جائے گی۔‘ وہ یہ کہتے کہتے اپنا سینہ پیٹنے لگتی ہے۔ زور زور سے آہ و زاری کرتی ہے۔ دوسرے مریض اس کو تسلی دیتے ہیں۔ میں اس کو گلے سے لگاتی ہوں اور اس کو خود پر قابو پانے کی منت کرنے لگتی ہوں۔۔۔۔۔ بچی بھی ماں کی حالت دیکھ کر رونا شروع کر دیتی ہے تو ماں خاموش ہو جاتی ہے۔ بچی کے ساتھ لپٹ جاتی ہے شاید دل کا بوجھ ہلکا ہوگیا ہے۔

میں نے ہسپتال کے ایک بڑے ڈاکٹر کو ایمرجنسی کے دوسرے وارڈ کی طرف دوڑتے دیکھا۔ ان کے پیچھے نرسیں اور چند ڈاکٹر بھی دوڑ رہے ہیں۔ میں بھی ان کی طرف فورا لپکی اور دیکھا کہ وارڈ کے سامنے ایمبولینس میں سے ایک نوجوان کو باہر نکال رہے ہیں۔ نوجوان بے ہوش پڑا ہے۔ اس کے کپڑوں پر خون کے دھبے بھی ہیں جو سوکھ گئے ہیں۔ نوجوان کے والد ڈاکٹروں سے کہہ رہے ہیں ’بیٹا صورہ کے جلوس میں زخمی ہوگیا تھا۔ پڑوس کے ایک ڈاکٹر نے ان کے زخموں کو دیکھا، دھویا اور دوائی دی مگر دوسرے روز سے ان پر غشی طاری ہوئی۔

پانچ میل پیدل چل کر میں نے ایمبولینس والے کا ایڈریس تلاش کیا۔ ایک روز تک اس کے گھر میں انتظار کیا۔ وہ رات کے بارہ بجے گھر پہنچا اور میں نے اس کو اپنے بیٹے کی حالت بتائی۔ اس نے واپس گاڑی نکال کر میرے ساتھ میرے گھر سے میرے بیٹے کو یہاں پہنچایا۔ اب میرے بیٹے کی زندگی آپ کے ہاتھ میں ہے۔۔۔۔ یہ میرا آخری سہارا ہے۔۔۔۔‘ وہ دیوانہ وار بڑے ڈاکٹر کے ارد گرد چکر لگا رہا ہے۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نے فورا اسے آپریشن تھیٹر میں جانے کی ہدایت کی شاید جسم کے اندر زخم لگے ہیں۔

اسی اثنا ایک اور ایمبولینس وارڈ کے سامنے رک گئی جس میں ایک عورت درد سے تڑپ رہی ہے۔ میں سوچ رہی ہوں کہ اس کو عورتوں کے ہسپتال کیوں نہیں پہنچا دیا گیا مگر عورت کے ساتھ ایک اور خاتون ڈاکٹر سے کہہ رہی ہیں کہ ہمیں لل دید سے یہاں بھیج دیا گیا اور ہسپتال کی پرچی ڈاکٹر کے ہاتھ میں تھما دی۔ ڈاکٹر قدرے پریشان ہوگیا اور اس کو فورا ڈرپ لگوانے کی ہدایت دی۔

شور بڑھ رہا ہے، گاڑیاں داخل ہو رہی ہیں اور چیخنے کی آوازیں دل کو دہلا رہی ہیں۔

صبح کے چار بجنے ہی والے ہیں۔ گیٹ پر خیراتی ادارے کی گاڑی پہنچ گئی ہے جس میں چائے لائی گئی ہے اور چند رضاکار تیمارداروں سے پوچھ رہے ہیں کہ کسی کو اگر کھانے کے علاوہ ادویات یا کوئی اور اشیا منگوانی ہے تو وہ ان کے لے منگوا سکتے ہیں۔

وارڈ میں مزید چند نرسیں نمودار ہو رہی ہیں اور وہ مریضوں کے پاس جاکر ان سے حال چال پوچھتی ہیں۔ نقلی مسکراہٹ سے ان کے دل کا حال عیاں ہو رہا ہے۔ دوائی کی دکان پر ایک لمبی لائن لگ جاتی ہے اور دوسری لائن او پی ڈی کے باہر، لیکن یہاں لائن اپنے عزیزوں کو فون کرنے کے لیے لگ گئی ہے۔ یہاں کے بڑے ڈاکٹر نے اپنا فون ذرا دیر پہلے بھیج دیا ہے اور وہ خود ایمرجنسی میں مریضوں کو دیکھنے جا رہا ہیں۔ 
میری آنکھیں بوجھل ہو رہی ہیں۔ گھر جانے کے لیے گاڑی نہیں ہے۔ چائے کی شدید طلب ہو رہی ہے۔ مریض چاچا سے الوداع کر کے خیراتی ادارے کی گاڑی کے ڈرائیور سے پوچھتی ہوں وہ کس طرف جا رہے ہیں۔۔۔ڈرائیور کہہ رہا ہے کہ اس کو ائیرپورٹ سے کسی ملازم کو پک کرنا ہے مگر میرا گھر وہاں سے بہت دور ہے۔ میں بنا سوچے سمجھے گاڑی میں بیٹھ جاتی ہوں۔ ائیرپورٹ جانے کے راستے پر صرف فوجی کھڑے ہیں، گاڑی کو روک کر ائیرپورٹ جانے کی وجہ پوچھتے ہیں۔ ڈرائیور بار بار کہہ رہا ہے دلی سے آنے والے ایک ڈاکٹر کو پک کرنا ہے۔

فوجی میری طرف دیکھ کر شاید سمجھ رہے ہیں کہ میں بھی ڈاکٹر ہوں بلکہ ایک مقام پر میں اپنی شناخت ظاہر کرنے ہی والی تھی کہ ڈرائیور نے اونچی آواز میں فوجی سے کہا کہ یہ بڑی ڈاکٹر ہیں اور ان کو بھی ائیرپورٹ سے واپسی پر ہسپتال میں چھوڑنا ہے۔۔۔۔اس راستے پر حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی کا مسکن بھی ہے جہاں سکیورٹی کافی تعداد میں ہے۔۔۔اگر گیلانی صاحب کی سکیورٹی نہیں ہوتی تو وہ کیا کرتے ہڑتال کی ایک اور کال دیتے؟ میری سوچ بھی مجھے  دیوانہ کر دے گی۔۔۔ ہم ائیرپورٹ پہنچ گئے ہیں۔

یہاں کا منظر ویسا نہیں جو ہسپتال کا تھا۔۔۔۔ یہاں کا حال ذرا مختلف ہے اور حکومت کی بعض پالیسیاں بےنقاب ہو رہی ہیں۔۔۔ اب میں تھک گئی ہوں۔۔۔ یہ احوال جلد ہی آپ تک پہنچانے کی کوشش کروں گی اگر میں زندہ رہی تو۔۔۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر