آرمی چیف توسیعی ’ہدایت نامے‘ کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

رولز آف بزنس پر مہارت رکھنے والے افراد کے مطابق یہ محض ایک کاغذ ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

وزیر اعظم آفس سے اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تو ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ یہ ’ڈایریکٹو‘ (ہدایت نامہ) ہے جو وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے ہی جاری کیا گیا تھا۔(عمران خان آفیشل فیس بک)

پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی تین سالہ نئی ملازمت پر وزیر اعظم کی جانب سے گذشتہ دنوں جاری اعلان کی نوعیت پر بعض ماہرین ابہام کا شکار دکھائی دیتے ہیں کہ آیا یہ حکم نامہ تھا، اعلان تھا، ہدایت نامہ تھا یا پریس ریلیز تھی۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس اعلامیے کی قانونی حیثیت جاننے کے لیے وزارت دفاع اور رولز آف بزنس پر مہارت رکھنے والے افراد سے گفتگو کی تو ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کے معاملات میں کوئی واضح طریقہ کار دستیاب نہیں ہے اور قانون ایسی کسی توسیع کے بارے میں خاموش ہے۔

وزیر اعظم آفس سے اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تو ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ یہ ’ڈایریکٹو‘ (ہدایت نامہ) ہے جو وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے ہی جاری کیا گیا تھا۔ ’وزیر اعظم عموما ایسے ہدایت نامے جو کہ فوری نوعیت کے ہوں ان پر خود دستخط کرتے ہیں اور اس حکم نامے کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔‘

اس معاملے کے بارے میں سوشل میڈیا پر سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں؛

 

پاکستان کی تاریخ میں دوسری دفعہ کسی سویلین حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی ہے اور دونوں مرتبہ اس بڑی خبر کا اعلان دو مختلف طریقوں سے کیا گیا۔

2010 میں اس وقت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے قوم سے خطاب میں اس فیصلے کا اعلان کیا تھا جبکہ اس بار وزیراعظم آفس کی طرف سے وزیر اعظم کے اپنے دستخط شدہ خط کے جاری ہونے سے فیصلے سے متعلق آگاہ کیا گیا۔

کیا وزیر اعظم اپنے دستخط سے تعیناتی کرتے ہیں؟

وزیر اعظم کی جانب سے خط کے حوالے سے صحافی و تجزیہ کار طلعت حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خط کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اسے جلد بازی میں جاری کیا گیا ہے۔

بیوروکریسی اور وزیر اعظم آفس امور پر نظر رکھنے والے دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشنز انصار عباسی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کا فائلوں پر خود لکھنے کا رواج پچھلے 30 سالوں سے ختم ہو چکا ہے کیوں کہ اب وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری ان کی جگہ فائلوں پر دستخط کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بھٹو صاحب (ذوالفقار علی بھٹو) خود فائل پر لکھا کرتے تھے مگر پچھلے 30 سالوں سے یہ رواج ختم ہو چکا ہے۔‘

توسیع ہے یا نئی ملازمت اور استحقاق کس کے پاس ہے؟

وزیر اعظم کے نام سے خط میں تعیناتی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جبکہ آئین کے آرٹیکل 243 کے مطابق صدر وزیر اعظم کے مشورے پر افواج کے سربراہان کی تعیناتی کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آرمی چیف کو نئی ٹرم دی گئی ہے جسے ’ایکسٹینڈڈ ٹینیور‘ (عہدے پر برقرار رکھنا) کہہ سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انصار عباسی کا کہنا تھا کہ صدر کا صرف نام استعمال ہوتا ہے، یہ وزیر اعظم کا استحقاق ہوتا ہے کہ توسیع دینی ہے یا نہیں۔

انصار عباسی نے مدت ملازمت بڑھانے کے عمل کو اداروں کے لیے نقصان دہ کہتے ہوئے کہا کہ ’یہ آرمی چیف کی دوسری ٹرم ہے اور آئین میں کہیں بھی توسیع کا ذکر نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’توسیع‘ ہم سہولت کے لیے عمومی طور پر استعمال کرتے ہیں دراصل یہ دوسری مدت ہے جو انہیں دی جا رہی ہے۔

جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کے وقت وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ انہوں نے صدر پاکستان کی مشاورت سے جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کیا ہے اور یہ پالیسی میں نرمی لاتے ہوئے کیا گیا ہے۔ تاہم عمران خان کے اعلان میں صدر کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

وزیراعظم نے اعلامیہ جاری کیا یا ہدایت نامہ؟

صحافی و تجزیہ کار طلعت حسین سے سوال کیا گیا کہ وہ اس خط کو نوٹیفیکیشن، ہدایت نامہ یا پریس ریلیز میں سے کیا کہیں گے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ خط وزیراعظم کی طرف سے بیان ہے اور اس کا مقصد لوگوں کو فیصلے سے متعلق آگاہ کرنا تھا۔

رولز آف بزنس پر مہارت رکھنے والے افراد کے مطابق یہ محض ایک کاغذ ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ ان کے مطابق کسی بھی سرکاری تعیناتی کے لیے نوٹیفیکیشن جاری کیا جاتا ہے جس کو گزٹ نوٹیفیکیشن کہتے ہیں اور اس میں تعیناتی کی وجہ بیان نہیں کی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق وزیر اعظم کی جانب سے جاری دستخط شدہ خط کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے کیوں کہ آرمی چیف کی ملازمت کے لیے باضابطہ نوٹیفیکیشن کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ سیکریٹری، ایڈیشنل سیکریٹری، جوائنٹ سیکریٹری، ڈپٹی سیکریٹری یا سیکشن افسر کے دستخط سے جاری ہوتا ہے۔

ہدایت نامے میں کسی کو مخاطب نہیں کیا گیا۔۔

صحافی طلعت حسین کا کہنا تھا کہ ہدایت نامے میں کئی مسائل ہیں۔ ان کے مطابق ہدایت نامہ کسی کے نام نہیں تھا اور نہ ہی کسی کو ’کاربن کاپی‘ کیا گیا کیوں کہ اس کیس میں خط وزارت دفاع کو ارسال کیا جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ خط کو دیکھ کر ان کا پہلا تاثر تھا کہ شاید یہ خط جعلی ہے۔

وزیر اعظم آفس سے جب سوال کیا گیا کہ ہدایت نامہ میں کسی کو مخاطب نہیں کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ عموما وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری ہدایت متعلقہ وزارت کو بھجوا دیتے ہیں جس کے بعد سمری تیار کی جاتی ہے۔

توقع ہے کہ جنرل باجوہ کی موجودہ مدت ملازمت کے خاتمے سے قبل وزارت دفاع باضابطہ نوٹیفیکیشن جاری کرے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان