ہم جنس پرست رجحانات کسی ایک جین کی وجہ سے نہیں ہوتے

محققین نے کہا ہے کہ غیرجینیاتی عوامل بشمول پرورش، شخصیت اور تربیت جنسی عمل کے لیے فریق کے انتخاب میں کسی فرد کے رویے پر کہیں زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔

جریدے ’سائنس‘ میں لکھنے والے محققین نے کہا ہے کہ جینیات ذمہ داری کے اعتبار سے ان مختلف عوامل کا تیسرا حصہ ہو سکتی ہیں جو اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ آیا کوئی فرد اپنے ہم جنس میں جنسی کشش محسوس کرتا ہے (اے ایف پی)

 

محققین نے کہا ہے کہ ہم جنس پرستی کی کوئی مخصوص جین نہیں ہوتی لیکن جینیات ماحولیاتی عوامل کے ساتھ مل کر کسی فرد کی جنسی ترجیحات پر اثرانداز ضرور ہو سکتی ہیں۔

اپنی نوعیت کی سب سے بڑی اور اس پہلی تحقیق میں پانچ لاکھ لوگوں کے کوائف اور ڈی این اے معلومات کا مطالعہ کیا گیا جس سے پتہ چلا کہ جینیاتی اعتبار سے ایسے عوامل موجود ہیں جن کا تعلق ہم جنس پرستی کے رویے سے ہے تاہم زیادہ تر عوامل اس حوالے سے بہت کم اثر انداز ہوتے ہیں۔

محققین نے کہا ہے کہ غیرجینیاتی عوامل بشمول پرورش، شخصیت اور تربیت جنسی عمل کے لیے فریق کے انتخاب میں کسی فرد کے رویے پر کہیں زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔

جریدے ’سائنس‘ میں لکھنے والے محققین نے کہا ہے کہ جینیات کی کارکردگی ان مختلف عوامل کا تیسرا حصہ ہو سکتی ہے جو اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ اکوئی فرد اپنے ہم جنس میں جنسی کشش محسوس کرے۔

فِن لینڈ میں انسٹی ٹیوٹ آف مولیکولر میڈیسن سے وابستہ ماہر حیاتیات اینڈریا گانا نے کہا: ’ہم نے انسان کے پورے جینیاتی نظام (genome) کا باریکی سے جائزہ لیا ہے۔ اس دوران مختصر طور پر پانچ ایسے مقامات سامنے آئے ہیں جو واضح طور پر کسی فرد کے ہم جنس پرستانہ رویے سے جڑے ہوئے ہیں۔‘

تحقیق کے عمل میں لوگوں کے جوابات پر غور کیا گیا ہے اور ایسے تجزیے کیے گئے ہیں جنہیں جینیاتی نظام سے جڑے مطالعے (Gwas) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار کے تحت ایسے چار لاکھ 70 ہزار لوگوں کے کوائف کا جائزہ لیا گیا۔ ان افراد نے برطانوی بائیو بینک اور جینیاتی ٹیسٹ کرنے والی امریکی کمپنی 23AndMe کو اپنے ڈی این اے کے نمونے اور طرز زندگی کے بارے میں معلومات فراہم کی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محققین سے سوال کیا گیا کہ انہوں نے اس قسم کی تحقیق میں دلچسپی کیوں لی تو ان کی ٹیم نے ٹیلی کانفرنس کے دوران رپورٹروں کو بتایا کہ اس سے پہلے اس موضوع پر ہونے والی تحقیق کا دائرہ اتنا چھوٹا تھا کہ اس سے ٹھوس نتائج حاصل کرنا مشکل تھا۔

اینڈریا گانا نے کہا: ’پہلے ہونے والی تحقیق بہت چھوٹے پیمانے پر تھی جبکہ اس کا دائرہ بھی وسیع نہیں تھا۔ اس لیے ہم نے ایک بڑا اور بین الاقوامی کنسورشیم بنانے کا فیصلہ کیا اور (تقریباً) پانچ لاکھ لوگوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جو اس موضوع پر اس سے پہلے ہونے والی تحقیق کے سے 100 گنا بڑی ہے۔‘

جنسی حقوق کے لیے مہم چلانے والوں نے اس تحقیق کا خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہےکہ ’اس سے مزید شہادت ملی ہے کہ کسی مرد یا خاتون کا ہم جنس پرست ہونا انسانی زندگی کا فطری حصہ ہے۔‘

امریکہ میں ایل جی بی ٹی اور حقوق گروپ (GLAAD) کے زیک سٹوکس نے کہا: ’اس نئی تحقیق نے پہلے سے موجود اس پختہ سوچ کی پھر سے تصدیق بھی کر دی ہے کہ کوئی ایسا پیمانہ نہیں ہے کہ جس سے فیصلہ کن نتیجہ نکالا جا سکے کہ فطرت اور تربیت کسی مرد یا خاتون کے ہم جنس پرستانہ رویے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق