برطانیہ میں جعلی ڈگری سکینڈل کے شکار پاکستانی طالب علم پر کیا گزری؟

سکینڈل میں وزارتِ داخلہ کی مدد کرنے والے متاثرہ پاکستانی شہری مدثر حسین کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا۔

مدثر حسین

برطانیہ میں جعلی کالج ڈگری سکینڈل میں وزارتِ داخلہ کی مدد کرنے والے متاثرہ پاکستانی شہری مدثر حسین کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا۔

اس حکم کو’تکلیف دہ حالات کی خوفناک کہانی’قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ مدثر نے جعلی ڈگری سکینڈل میں ملوث افراد کو سزا دلوانے میں مدد کی تھی۔ حسین نے کہا کہ ان کی زندگی اِس حد تک’برباد‘کردی گئی ہے کہ وہ خود کشی کی کوشش پر مجبور ہو گئے۔

انہوں نے کہا دھوکہ دہی کو بنیاد بنا کرانہیں امیگریشن حقوق سے محروم کر دیا گیا حالانکہ حکومت نے اعتراف کیا کہ جعلی ڈگری سکینڈل میں وہ خود متاثرہ فریق ہیں۔

سیاست دانوں اور رفاہی تنظیموں نے وزارت داخلہ پر الزام لگایا ہے کہ وہ فراڈ میں ملوث دو افراد کے خلاف گواہ کے طور پر استعمال کرنے کے بعد ’ایک بے گناہ شخص‘ کو نشانہ بنا رہی ہے اور انہیں تارک وطن کے درجے یا حقوق تک رسائی کے بغیر چھوڑ دیا گیا۔

حسین 2008 میں طالب علم کی حیثیت سے برطانیہ آئے تھے۔ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک جانے والے اپنے خاندان کے پہلے فرد ہیں۔انہوں نے 2012 میں لندن کے سکول آف اکنامکس(ایل ایس ای) سے ہیلتھ پالیسی میں ماسٹرز کیا۔

اس دوران انہوں نے کینسنگٹن کالج آف بزنس سے ایم بی اے کے’اضافی‘کورس میں داخلے کا فیصلہ کیا۔ان کا کہنا ہے اس فیصلے سے ان کی زندگی’تہہ وبالا‘ہو کر رہ گئی۔

ایم بی اے کورس مکمل کرنے کے بعد حسین کو ڈگری کے لیے مقالہ جمع کرانے کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے وزارت داخلہ کو پوسٹ ورک سٹڈی ویزے کی درخواست دی لیکن 2012 میں یہ درخواست مسترد کردی گئی اور اس کے لیے بنیاد یہ بنائی گئی کہ انہوں نے اپنی درخواست کے ساتھ جعلی دستاویز لگائی ہے۔

حسین نے کہا کہ یہ جان کر انہیں’سخت دھچکہ‘لگا۔ ’میری درخواست دھوکہ دہی کی بنیاد پر مسترد کی گئی۔ مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میں ایل ایس ای میں ڈگری کے لیے تعلیم کے دوران انگریزی نہیں بول سکا۔ یہ میرے لیے بھیانک خواب تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ کیا اور کیسے ہوا ہے۔ میں نے بے حد محنت کرکے مقالہ تیار کیا تھا۔‘

حسین کے معاملے میں ایم بی اے کا کورس جعلی تھا اور جو دو لوگ یہ کورس کروا رہے تھے وہ ایسے جعلی سرٹیفکیٹس تیار کرنے میں مصروف تھے جنہیں حسین اور دوسرے طلبہ نے وزارت داخلہ سے ویزہ لینے کے لیے درخواستوں کے ساتھ لگایا۔ بعد میں دونوں کو سازش اور دھوکہ دہی کے جرم میں قید کی سزا ہو گئی۔

حسین نے مزید کہا ’میری دماغی حالت بہت خراب تھی۔ میری حالت ایسے شخص کی تھی جو سب کچھ کھو چکا ہو۔ زندگی کا مقصد، والدین، خواب سب کچھ تباہ ہوگیا۔ میں کچھ اور سوچ سکتا تھا اور نہ کر سکتا تھا۔ میں نے سوچا اب یہاں سے جانا ہی بہتر ہوگا جہاں میرا کوئی مستقبل نہیں تھا۔‘

ایک ماہ بعد ایک ایسے پاکستانی شہری کو جن کا ویزہ مزید ایک برس تک قابل استعمال تھا وزارت داخلہ کی تحقیقاتی ٹیم سے ملاقات کی ہدایت کی گئی۔

حسین نے کہا وہ اپنے سامان کے ساتھ پہنچے کیونکہ وہ پاکستان جانے کے لیے تیار تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحقیقاتی ٹیم نے مبینہ طور پر انہیں بتایا کہ وہ برطانیہ میں رہ سکتے ہیں کیونکہ جعلی ایم بی اے ڈگری کورس میں ملوث افراد کے خلاف’بہت ٹھوس ثبوت‘ہیں۔

حسین نے کہا آنے والے ہفتوں میں جس قدر ہو سکتا تھا انہوں نے تحقیقاتی ٹیم کی مدد کی، ہرراستہ تلاش کرنے کی کوشش کی اور وزارت داخلہ کی چھان بین میں ’تمام ممکنہ شواہد‘فراہم کیے۔

اسی وجہ سے جب انہیں فروری 2013 میں وزارت داخلہ کا خط ملا کہ ان کے ویزے کی مدت کم کردی گئی ہے اور انہیں دو ماہ میں برطانیہ چھوڑنا ہوگا تو انہیں دھچکہ لگا۔

حسین کہتے ہیں انہوں نے تحقیقاتی ٹیم کو صورت حال سے آگاہ کیا، جس پر انہیں ایک اور ویزے کی درخواست دینے کا مشورہ دیا گیا، لیکن یہ درخواست بھی اس بنیاد پر مسترد کر دی گئی کہ انہوں نے’اس سے پہلے برطانیہ میں رہنے کی اجازت کے لیے جعلی دستاویزات فراہم کی تھیں‘۔

انہوں نے کہا اس کے بعد تفتیشی ٹیم نے ان کی ٹیلی فون کالز اور ای میلز کا جواب دینا بند کردیا۔

وزارت داخلہ کے ترجمان نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ حسین دھوکہ دہی سے متاثر ہوئے لیکن’کسی بھی موقعے پر وزارت داخلہ کے عملے نے ان سے ایسا نہیں کہا کہ دھوکہ دہی کی تحقیقات میں گواہی دینے سے ان کی امیگریشن درخواست پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔‘

انہوں نے یہ بھی کہا وہ اس طریقہ کار پر عمل کے معاملے میں بار بار ناکام رہے جو بین الاقوامی طلبہ کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔اس میں کالج تبدیل کرنے کی اطلاع محکمے کو نہ دینا بھی شامل ہے۔

حسین نے بتایا جب انہوں نے صورت حال کی اطلاع پاکستان میں اپنے والدین کو دی تو وہ’پریشان‘ ہو گئے۔

ان کا خیال تھا میں نے خاندان کو مایوس کیا۔ ’میرے خاندان نے میری مدد مکمل طور پر بند کردی۔ وہ ہر چیز سے کنارہ کش ہو گئے ہیں۔ میرے والد نے مجھ سے لاتعلقی ظاہر کر دی۔ انہوں نے میری بہتر زندگی اور تعلیم کے لیے تمام رقم لگا دی۔‘

حسین برطانوی عدالتوں میں وزارت داخلہ کے ساتھ اپنا مقدمہ لڑتے رہے لیکن ہر مرحلے پر انہیں انکار کیا گیا۔

2014 میں ایک انکار کے بعد حسین نے نشہ آور دوا کی مدد سے خود کشی کی کوشش کی۔ ان کے ساتھ رہنے والے ساتھی کو صورت حال کا علم ہو گیا اور انہوں نے گھر سے جانے کا کہہ دیا۔

اس کے بعد وہ اپنے کزن کے ساتھ رہنے کے لیے مانچسٹر چلے گئے، جہاں وہ اب تک رہ رہے ہیں۔انہیں کام کی اجازت نہیں، اس لیے ان کے کھانے پینے کی ذمہ داری ان کے کزن پر ہے۔

جولائی 2015 میں وزارت داخلہ کی تحقیقاتی ٹیم کے بیان میں کہا گیا ’حسین نے فیصلہ کن شہادت دی‘۔ بیان میں بتایا گیا دو مجرموں کی وجہ سے کس طرح ان کی زندگی’تباہ‘ہو کر رہ گئی۔

بیان میں مزید کہا گیا ’اس کیس کا بدترین پہلو وہ طلبہ ہیں جنہیں دھوکہ دیا گیا اور بتایا گیا ان کی تعلیم مکمل ہو چکی ہے اور مدثر حسین اپنے متاثرہ ہونے کا بیان دے کراس صورت حال میں ایک مثال بن گئے۔‘

حسین نے کہا ’میری سمجھ سے باہر ہے کہ کیا ہوا ہے اور یہ میرے ساتھ کیسے ہو سکتا ہے۔ میں اپنی جگہ پر درست ہوں اور زندگی بھر درست رہوں گا۔ میں نے کوئی جعلی دستاویز جمع نہیں کرائی اور نہ ایسا کبھی ایسا سوچ سکتا ہوں۔‘

’ویزے کی درخواست مسترد ہونے سے میری زندگی اورمستقبل تباہ ہو گئے۔ میں مسلسل مایوسی کا شکار ہوں۔ مجھے خوف ہے کہ مستقبل میں بھی جو درخواستیں دوں گا انہیں وزارت داخلہ مسترد کر دے گی کیونکہ وہ سمجھتے ہیں میں نے دھوکہ دہی سے کام لیا۔‘

’میں نے گذشتہ چار برس کے دوران برطانیہ میں تعلیم حاصل کی اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ حصول تعلیم کی لگن اور کامیابیاں سب بے کار گئی ہیں۔ میرے خون اور آنسوؤں کا نتیجہ صفر رہا ہے۔‘

برطانوی لیبر پارٹی کے شیڈو وزیر داخلہ ڈیان ایبٹ نے کہا ’یہ اس بے چارے کی تکلیف کی بڑی افسوس ناک کہانی ہے۔ ٹوری پارٹی کی حکومتوں کے تسلسل سے وزارت داخلہ کا نظام مزید پیچیدہ اور یکطرفہ اور اس میں انسانی ہمدردی کا پہلو کمزور ہو گیا ہے۔‘

انہوں نے کہا ’حکومت کا دعویٰ ہے کہ ’ناموافق ماحول‘ختم ہو چکا لیکن مدثر حسین اور اس طرح کے دوسرے کیسوں سے نظر آتا ہے کہ انہوں نے ماحول میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔‘

تارکین وطن کے لیے کام کرنے والی تنظیم مائیگرنٹ وائس کی ڈائریکٹر نازک رمضان نے کہا ’یہ خاص طور پر ہلا دینے والی مثال ہے کہ وزارت داخلہ کے فیصلے اس ملک میں بے قصور افراد اور قانون کے پابند لوگوں کی زندگی کو غیرضروری طور پر تباہ کر رہے ہیں۔‘

’وزارت داخلہ نے اعتراف کیا کہ حسین دھوکہ دہی کا شکار ہوئے۔ان پر اعتماد کرکے انہیں دھوکہ بازوں کے خلاف اہم گواہ کے طورپر استعمال کیا گیا۔اس کے بعد وزارت داخلہ نے ان سے بے وفائی اور برطانیہ میں قانون سٹیٹس کے بغیر چھوڑ دیا گیا۔حسین کو ان کے جائز حقوق تک رسائی نہیں دی گئی اور مستقبل سے محروم کر دیا گیا۔‘

’انہیں جو کہا گیا انہوں نے وہ اور اس سے بھی بڑھ کر کیا، اس کے باوجود انہیں سزا دی گئی۔ وزارت داخلہ نے کئی بار وعدہ کیا کہ ان کا مسئلہ حل کیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘

’مدثر حسین نے زندگی کے جو برس کھو دیے وہ واپس نہیں آ سکتے اور ہو سکتا ہے ان کے تلخ تجربے کے زخم کبھی نہ بھریں لیکن اب یہ حکومت کے لیے لازمی ہو گیا ہے کہ وہ انہیں برطانیہ میں قیام، کام اور تعلیم مکمل کرنے کا حق دے۔ وزارت داخلہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ کسی اورکو اس طرح کی ناانصافی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘

وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا’ہمیں اس صورت حال میں مدثر حسین سے ہمدردی ہے لیکن ان کے پاس برطانیہ میں رہنے کا کوئی قابل عمل جواز نہیں۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ