کیا پاکستان کو شملہ معاہدے سے نکل جانا چاہیے؟

ہمیں پانچ اگست کی بھارتی شرارت کا مقابلہ کرنے کے لیے نئے اور منفرد اقدامات کے بارے میں سوچنا ہوگا کہ کس طرح دنیا کی توجہ مسئلہِ کشمیر پر مسلسل قائم رہے۔

 شملہ معاہدے کے باوجود سیاچن پر بھارت کا قبضہ اور اقوام عالم کی خاموشی اس معاہدے کو پہلے ہی دفن کر چکی ہے (اے ایف پی) 

پانچ اگست کو بھارت کی آئینی شرارت کے بعد بھارت اور پاکستان کے تعلقات اور معاہدوں، خصوصاً شملہ معاہدے، میں ایک بنیادی تبدیلی واقع ہوئی ہے اور بھارتی قدم نے قانونی طور پر شملہ معاہدے کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا ہے۔

بہت سے سفارت کاروں، قانون دانوں اور آئینی ماہرین کی رائے میں شملہ معاہدے کی افادیت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ اب عوامی سطح پر بحث شروع ہو گئی ہے کہ ہمیں اس غیر موثر معاہدے میں رہنے کی ضرورت ہے بھی یا نہیں، اور یہ کہ ہمیں اس معاہدے سے نکلنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ و بچار کرنے کی ضرورت ہے۔

بھارتی اقدام نے پاکستان میں شملہ معاہدے کے خلاف آرا میں اضافہ کیا ہے اور سوالات پوچھے جا رہے ہیں اس معاہدے نے آج تک ہمیں کیا فائدہ دیا؟ معاہدے کی حمایت اور مخالفت میں مختلف دلائل دیے جا رہے ہیں۔ درج ذیل سطروں میں ان دلائل کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔ 

معاہدہ ختم کرنے کے حق میں اٹھنے والی آوازیں سمجھتی ہیں اس معاہدے نے شروع میں ہمارے جنگی قیدیوں کی رہائی اور مغربی پاکستان میں ہمارے علاقوں کی واپسی میں مدد کی مگر بھارت کے ساتھ ہمارے تنازعات خصوصاً کشمیر کے مسئلے میں ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

اس معاہدے کی رو سے ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پس پشت ڈالنے اور باہمی صلاح و مشورے کو ترجیح دینے پر مجبور ہو گئے۔ اس سے نہ صرف بھارت پر بین الاقوامی دباؤ کم ہوا بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حیثیت بھی مشکوک ہو گئی۔

جب بھی بھارت پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ باہمی تنازعات کو حل کرے تو وہ شملہ معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے کسی بھی بین الاقوامی ثالثی کا راستہ بند کر دیتا ہے۔

اب صورت حال یہ ہو گئی ہے دنیا نے بھارت کا یہ موقف تقریباً مان لیا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ باہمی مفاہمت سے حل ہونا چاہیے نہ کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق۔

ہمارے ہاں بیک چینل ڈپلومیسی نے بھی بیرونی دنیا کو یہ تاثر دیا کہ ہم بھی اس مسئلے کو باہمی طور پر حل کرنا چاہتے ہیں۔ اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے  ہم شملہ معاہدے سے باہر نکل آئیں اور اس کی وجہ بھارت کے پانچ اگست کے اقدام سے جوڑ دیں۔ 

پانچ اگست کا اقدام بھارت کی طرف سے ایک علاقائی توسیع کا بھی اعلان ہے جو اقوام متحدہ کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ شملہ معاہدے کے باوجود سیاچن پر بھارت کا قبضہ اور اقوام عالم کی خاموشی اس معاہدے کو پہلے ہی دفن کر چکی ہے۔

ہماری طرف سے شملہ معاہدے کے خاتمے کا اعلان دنیا کو پیغام دے گا کہ جنوبی ایشیا میں امن کو سنگین خطرات لاحق ہیں اور اس خطرے سے بین الاقوامی طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔

شملہ معاہدے سے نکلنے کا فائدہ کیا ہو گا؟

ہمارا اعلان ایک بین الاقوامی ہلچل پیدا کر دے گا اور دنیا کو ہماری بات سننی پڑے گی۔ اس اقدام سے ہمارے مسائل کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کی ابتدا ہو سکتی ہے۔ پانچ اگست کے اقدام نے شملہ معاہدے پر خودکش حملہ کیا ہے جس کے بعد لائن آف کنٹرول کی قانونی حیثیت بھی تقریباً ختم ہو گئی ہے۔

اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے عہد کیا تھا کہ جب تک ہمارے سارے باہمی مسائل حل نہیں ہو پاتے، کوئی بھی فریق ایسا قدم نہیں اٹھائے گا جس سے علاقے کے معروضی حالات میں کسی قسم کی بھی تبدیلی آئے۔

پانچ اگست کے اقدام نے ایل او سی کو ختم کر دیا اور بھارتی حکومت کو تقریباً یہ خود ساختہ اختیار دے دیا کہ وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر حملہ کر کے اسے اپنے زیر انتظام کشمیر کے ساتھ ملا دے۔ ہمارا مسئلہ بھارتی آئین نہیں بلکہ اس اقدام کی قانونی حیثیت ہے جس کے تحت ایل او سی گم ہو گئی ہے۔ 

بین الاقوامی برادری پر اس مسئلے کی سنجیدگی اجاگر کرنے کا بہترین موقع 25 ستمبر کو ہو گا جب وزیراعظم عمران خان نیویارک میں جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔

خطاب کے دوران وہ بین الاقوامی امن کو لاحق خطرات کے بارے میں تفصیل سے پاکستان کے نقطۂ نظر سے آگاہ کریں اور اقوام متحدہ کی اس سلسلے میں ناکامی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے شملہ معاہدے کے خاتمے کا اعلان کریں۔ اس اعلان کا بین الاقوامی برادری پر بہت اثر ہو گا اور عالمی امن کی خاطر وہ کشمیر مسئلے کے حل کے لیے کسی مثبت اقدام کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا شروع کریں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان دانشوروں کے خیال میں چونکہ آج کل دنیا میں لاقانونیت کا دور دورہ ہے جس میں طاقتور ممالک ہر قسم کے معاہدوں کے خلاف ورزی کر رہے ہیں تو ہمیں بھی اس قسم کے ملتے جلتے اقدامات کرنا چاہییں۔ 

معاہدے سے نکلنے کے خطرات

تاہم دوسری طرف اس رائے کے مخالف تجزیہ کار اور سفارت کار اب بھی شملہ معاہدے کی افادیت پر زور دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں سب سے بڑا نقصان یہ ہو گا کہ دونوں ممالک اپنا اپنا علاقہ بڑھانے کی کوشش کریں گے اور اس کوشش میں مسلسل بدامنی کی صورت پیدا ہو گی جو بھارت جیسے نسبتاً بڑے ملک کی معیشت کو شاید زیادہ نقصان نہ پہنچائے مگر پاکستان کی موجودہ کمزور معیشت کا دیوالیہ کر سکتی ہے۔ 

ہمیں 370 اور A35 کے بارے میں زیادہ تردد کی ضرورت نہیں کیوں کہ بھارتی اقدام کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

بھارت ہمارے علاقوں پر قبضہ نہیں کر سکتا کیونکہ یہ شملہ معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی، مگر معاہدے سے نکلنے کے بعد بھارت پر اس قسم کی کوئی قدغن نہیں ہو گی۔

ہمیں کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھائے رکھنی چاہیے اور اسے قصہ پارینہ نہ بننے دینا چاہیے۔ ہمیں دنیا پر یہ بھی واضح کرنا چاہیے کہ بھارتی اقدام سے بین الاقوامی امن کو خطرہ لاحق ہے۔

کچھ لوگوں کو یہ بھی فکر ہے اگر شملہ معاہدے کو ختم کیا گیا تو اس کا برا اثر سندھ طاس آبی معاہدے پر پڑے گا اور ممکن ہے بھارت اس معاہدے کو ختم کرنے کا یک طرفہ اعلان کر کے ہمارے لیے خوفناک آبی مسائل پیدا کر دے۔

ہمیں معاہدے سے نکلنے کی بجائے دنیا پر ناقابل تردید ثبوت کے ساتھ واضح کرنا ہو گا کہ یہ بھارت کی سوچی سمجھی پالیسی ہے کہ کس طرح اقوام متحدہ کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو آہستہ آہستہ ختم کیا جائے۔

معاہدے سے نکلنے میں بہت خطرات مضمر ہیں۔ موجودہ حالات میں جبکہ پاکستان سیاسی اور اقتصادی طور پر ایک بحران کا شکار ہے، کسی قسم کا انتہائی اقدام نقصان دہ ہو گا اور شاید ہماری ریاست اس طرح کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی۔

متعدد تجزیہ نگار پوچھتے ہیں کہ معاہدے سے نکلنے کے بعد کیا ہو گا؟ کیا ہم واپس سلامتی کونسل کی طرف جائیں گے جہاں سے کسی قسم کی خیر کی توقع نہیں یا جہادی گروپوں کو دوبارہ متحرک کریں گے اور بین الاقوامی آؤٹ کاسٹ ہو جائیں گے.

ہمارے فیصلہ سازوں کو ان تمام دلائل کو غور سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کسی قسم کے بڑے فیصلے سے پہلے ایک قومی ہم آہنگی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہو گی۔

ہمیں بھارتی اقدام کا مقابلہ کرنے کے لیے نئے اور منفرد اقدامات کے بارے میں سوچنا ہوگا کہ کس طرح دنیا کی توجہ کشمیر کے مسئلے پر مسلسل قائم رہے اور ایک بین الاقوامی اتفاق رائے پیدا ہو سکے کہ اس مسئلے کا حل علاقائی اور عالمی امن کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ 

ہمیں اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ بھارت پر مزید دباؤ ڈالنے کے لیے کیا ہم اقوام متحدہ کے سامنے یہ پیش کش کر سکتے ہیں کہ وہ حق خودارادیت کے بارے میں استصواب رائے کا آغاز پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے شروع کر دے؟

اس سلسلے میں ہم تمام ضلعوں کو تیار کریں اور استصواب رائے کے دوران کچھ عرصے کے لیے ایک ایک ضلعے کا اختیار اقوام متحدہ کے حوالے کریں۔ اس تجویز پر تفصیل سے بحث کی جا سکتی ہے اور ہمارے مفادات کا خیال رکھتے ہوئے طریقہ کار بنایا جا سکتا ہے۔

اس سے نہ صرف دنیا کشمیر مسئلے سے مسلسل آگاہ رہے گی بلکہ بھارت پر بھی بین الاقوامی دباؤ بڑھے گا کہ وہ بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں اقوام متحدہ کی زیرنگرانی استصواب رائے کا اہتمام کرے۔

اس کے علاوہ ہمارے ہاں استصواب رائے اور اس کے مثبت نتائج کشمیر میں بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد کو مہمیز فراہم کریں گے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر