جنسی تشدد سہنے والی خواتین کو سمجھنے کے لیے ہم کچھ نہیں کر رہے

گھریلو تشدد کے کیسز میں سزا سنائے جانے کی شرح میں تو اضافہ ہو رہا ہے لیکن جنسی تشدد کے کیسز میں سزا سنانے میں کمی ہورہی ہے، ہم متاثرہ افراد کے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟

امریکہ میں ایک جنسی تشدد  کے خلاف ایک مظاہرہ (روئٹرز)

لوگوں سے جب آپ پوچھیں گے کہ وہ ’گھریلو تشدد‘ یا ڈومیسٹک وائلینس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں تو زیادہ تر شاید جواب دیں کہ اس میں لاتیں اور مکے مارنا اور چیخنا چلانا شامل ہے۔ لیکن وہ لوگ جو مسلط کردہ رشتوں میں رہ رہے ہوتے ہیں وہ بھی جنسی تشدد کے متاثرین میں شمار ہوتے ہیں۔

حکومت نے جنسی تشدد اور گھریلو تشدد کے لیے الگ الگ فنڈنگ قائم کر رکھی ہیں لیکن ان دونوں میں فرق کرتی لکیر بہت دھندلی ہے۔ اس حوالے سے اعداد و شمار بھی ملتے جلتے ہیں۔ تقریباً چار میں سے ایک خاتون گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہے جبکہ تقریباً پانچ خواتین میں سے ایک اپنی بلوغت میں جنسی تشدد کا سامنا کرتی ہے۔ ایسا سوچنا بہت سادگی کی بات ہوگی کہ ایسا ایک ہی خاتون کے ساتھ نہ ہوا ہو۔

ایک پر تشدد رشتے میں تشدد کرنے والا شخص جسمانی حملے کے بعد اپنے متاثرہ پارٹنر کو جنسی تعلق قائم کرنے پر بھی مجبور کر سکتا ہے۔ اکثر’معافی‘ کے پردے میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش چھپی ہوتی ہے۔ یہ دونوں عوامل ہی طاقت، تذلیل اور اپنا زور دکھانے پر مبنی ہوتے ہیں۔

پیٹربورو ریپ کرائسز سینٹر میں رضاکارانہ خدمات کے دوران میں یہ جان کر صدمے میں آگئی تھی کہ جنسی تشدد کے لیے فنڈز جمع کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ ہمیں مقامی سپر مارکیٹ میں بطور ٹوکن بھی جگہ دستیاب نہیں تھی کیونکہ لوگوں کے لیے ’ریپ‘ کا لفظ برداشت کرنا مشکل تھا جبکہ میں کئی مقامات پر لوگوں کو گھریلو تشدد کے متاثرین کے لیے فنڈز اکٹھا کرتا دیکھ چکی ہوں۔ ایک متاثرہ شخص کے لیے یہ تفریق بہت نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ تشدد کی دوسری اقسام کے برخلاف جنسی تشدد کے متاثرین کسی طرح سے اپنی حالت کے خود ہی زمہ دار ہیں۔

صرف ایسا نہیں ہے کہ لوگ غیر جنسی تشدد کو آسانی سے سمجھ سکتے ہوں بلکہ عدالتوں میں بھی اس حوالے سے کھلا تعصب پایا جاتا ہے۔ اس ہفتے ہی رپورٹ کی گئی تفصیلات کے مطابق ویلز میں گھریلو تشدد میں سزا سنائی جانے کے واقعات کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے (18-2017 میں یہ شرح 78 فیصد تھی)۔ جبکہ انگلینڈ اور ویلز میں جنسی تشدد میں سزا سنائی جانے کی شرح پانچ سال کی پست ترین سطح پر آچکی ہے۔ گذشتہ سال اپریل اور ستمبر کے دوران صرف 37 فیصد مقدمات کروان پراسیکیوشن سروس کو بھیجے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 یہ جنسی تشدد کے متاثرین کے لیے ایک پریشان کن پیغام ہے۔ میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتی ہوں جو پولیس کے پاس نہیں جائیں گے کیونکہ وہ خوفزدہ ہیں کہ ان پر یقین نہیں کیا جائے گا یا ان سے ان کے فون ریکارڈز اور سابقہ تعلقات کے بارے میں سوالات کیے جائیں جس سے متاثرین پر ہی الزام دھرنے کا تاثر ملتا ہے۔ یہاں میں ان لوگوں کا ذکر نہیں کر رہی جو پولیس تک جانے کی ہمت کر چکے ہیں اور دردناک بیان دے کر بھی ملزم کے خلاف ان کا کیس خارج ہو گیا ہو۔ جب جنسی تشدد کے متاثرین کو دکھائی دیتا ہے کہ ملزم کو سزا ملنے کے امکانات بہت کم ہیں تو ان کے اس قانونی عمل کا حصہ نہ بننے کے فیصلے کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔

سروائیورز سٹوری نامی اپنی ویب سائٹ شروع کرتے ہوئے میں نے بہت سے ایسی خواتین سے بات کی جنہوں نے جذباتی اور جسمانی استحصال کے حوالے سے مدد طلب کی۔ ایسا ان کی جانب سے جنسی تشدد کے زخموں کو بھرنے کا فیصلہ لینے سے بھی سالوں پہلے کیا گیا۔ ایک خاتون نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے تشدد پسند ساتھی سے علیحدگی کے بعد ویمن ایڈ کے پاس گئی لیکن ایک ریپ کرائسزسینٹر جانے کے بارے میں فیصلہ نہیں لے پائیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہیں لگا وہ ’کسی اجنبی کے ہاتھوں ریپ کا شکار ہونے والی کسی خاتون کا حق غصب کرنے’ کے بارے میں پریشان تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی بہت اہمیت ہے کہ ہم کسی بھی قسم کے تشدد کے متاثرین سے کیسے بات کرتے ہیں۔

جب تک معاشرہ اور میڈیا یہی سوچتا رہے گا کہ ریپ کسی اجنبی کے ہاتھوں گلی میں ہونے والا تشدد کا صرف ایک واقعہ ہے اور ایسی زبان کا استعمال جاری رکھے گا جس میں الزام متاثرین پر ہی دھرا جائے گا تو وہ خواتین جو منظم انداز میں یا اپنے کسی ساتھی کے ریپ کا مسلسل نشانہ بنی ہیں وہ خود کو مدد حاصل کرنے کے قابل نہیں سمجھیں گی۔

اس رسوائی کے احساس کو یہ ملزمان بہت بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔ یہ ان کی جانب سے ایسی خواتین کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے اپنائے جانے والے ہتھکنڈوں پر مبنی ترکش کا ایک تیر ہے کیونکہ۔ وہ جس پر تشدد کر رہے ہوتے ہیں اسے یہ کہہ کر چپ کرواتے یں کہ ’کوئی تم پر یقین نہیں کرے گا‘ یا ’ تم یہی چاہتی تھی۔‘

لوگ صرف مخصوص قسم کے تشدد کے متاثرین کی مدد کر کے اچھا محسوس کیوں کرتے ہیں جبکہ یہ تشدد ایک جیسے رویے سے ہی جنم لیتا ہے۔ ہمیں مختلف تجربات سے گزرنے والے متاثرین کو اچھے سے سننا چاہیے اور ریپ کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔ صرف اسی صورت میں ہی ہم مدد حاصل کرنے کی ان کی کوششوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ اس بات سے فرق نہیں پڑنا چاہیے کہ ان پر ہونے والا تشدد کس قسم کا تھا۔ 

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر