بھارتی معاشرے کے دہانے پر دھکیل دی گئیں مخنث خواتین کو ایچ آئی وی کا خطرہ

ایسا ملک جہاں 87 فیصد تک مخنث خواتین جسم فروشی یا بھیک سے پیسہ کماتی ہوں، ایچ آئی وی کی شرح کڑی حد تک بلند ہے

بوبی ایک مخنث خاتون ہیں جو دلی میں جسم فروشی سے گزر بسر کرتی ہیں۔  وہ سمارتھ کلینک اپنے ٹیسٹ کے لیے باقاعدگی سے آتی ہیں۔ ایڈم وٹنال

بوبی گنتی بھول چکی ہیں کہ کتنی مرتبہ اُن کا گینگ ریپ ہوا۔ اندازہ ہے کہ آٹھ سے دس مرتبہ۔

کہتی ہیں کہ "ہردفعہ بغیر کونڈم کے ہوا۔ ہر دفعہ مجھے مارا پیٹا گیا۔"

بھارت کے دارالحکومت دلی کی مخنث سیکس ورکرپچیس سالہ مسکراتی ہوئی اور بے باک بوبی ہر وقت ایچ آئی وی سے متاثر ہونے کے خطرے میں رہتی ہیں جس پر اُن کا کوئی قابو نہیں۔

دی انڈیپینڈنٹ سے انہوں نے سمارتھ کلینک میں گفتگو کی۔ ظاہری طور پر یہ سادہ سا مرکز بھارت کی ایچ آئی وی ایڈز الائنس کی جانب سے دلی کے مضافات میں چلایا جا رہا ہے اور اسے ایلٹن جان ایڈز فاؤنڈیشن کا تعاون حاصل ہے۔  

سمارتھ کا ہدف وہ طبقات ہیں جو بھارت میں ایڈز کے خلاف وسیع سرکاری مہم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اگرچہ ملک بھر میں ایڈز کے متاثرین کی مجموعی شرح صفر اعشاریہ دو فیصد ہے لیکن مخنث خواتین میں یہ شرح سات اعشاریہ چار فیصد تک بڑھ جاتی ہے۔

بوبی نے بارہ سال کی عمر میں خود کو خاتون کہنا شروع کیا لیکن شمالی ریاست ہیماچل پردیش کے ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتے ہوئے وہ کسی اور کو نہیں جانتی تھیں جو اُنہی کی طرح محسوس کرتا ہو۔

اُن کا بڑا بھائی اُن کی بے عزتی کرتا رہتا تھا اور باقاعدگی سے اُنہیں پیٹتا تھا۔ اُن کے والدین اگرچہ خود بدسلوکی نہیں کرتے تھے لیکن بھائی کو روکتے بھی نہیں تھے۔

وہ کہتی ہیں کہ اٹھارہ سال کی عمر میں دلی آنے سے پہلے انہیں لگتا تھا کہ وہ "خلائی مخلوق" ہیں۔ اُن کے بقول دارالحکومت میں وہ اپنی خوشی سے جیسا لباس چاہتی ہیں، پہن لیتی ہیں اور "گلی میں کوئی مجھ پر انگلی نہیں اٹھاتا"۔ 

بوبی اتفاقاۙ جسم فروشی میں پڑیں جب رہائش کی تلاش کے دوران ایک بوائے فرینڈ نے اُن کے رہنے کا خرچہ بھرنے کی پیشکش کی۔

الائنس کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ابھینا احر کے بقول یہ جواز ایل جی بی ٹی طبقے میں عام ہے۔ کام کی جگہوں پر رسوائی کے باعث مخنث خواتین روزی کمانے کے مواقع سے محروم ہو جاتی ہیں۔ خیراتی ادارے کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ستاسی فیصد مخنث خواتین جسم فروشی یا بھیک مانگ کر پیسہ کماتی ہیں۔

مس احر کہتی ہیں کہ "تعلیمی اداروں میں اگر آپ الگ جنس والے بچے ہیں یا مختلف جنسی رجھان کا اظہار کرتے ہیں تو بہت زیادہ چھیڑچھاڑ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور اُنہیں تعلیم ترک کرنے سے روکنے کے لیے تعاون کا ماحول نہیں ہوتا۔ چنانچہ ایسے بچے شروع سے ہی غربت کے گھناؤنے چکر میں پھنس جاتے ہیں"۔

"تعلیم نہیں ہوتی تو نوکری نہیں ملتی۔ اور آپ ایسی حالت میں پھنس جاتے ہیں جس میں آپ پیسہ نہیں کما سکتے۔ معیشت میں اپنا حصہ نہیں ڈال پاتے اور بیک وقت آپ پُرخطر جنسی طرزِ عمل میں ملوث ہو جاتے ہیں۔"

"کیا کریں گے آپ؟ پُرخطر جنسی طرزِعمل میں ملوث رہیں گے تاکہ اپنے خاندان کے لیے تھوڑے پیسے کما لیں؟ کیوں نہیں؟"

بوبی بتاتی ہیں کہ اب وہ ایک رات میں پندرہ سے بیس گاہکوں کے ساتھ سیکس کر لیتی ہیں۔ وہ معائنے کے لیے باقاعدگی سے کلینک آتی ہیں جہاں انہیں اپنی کمیونٹی کا احساس بھی ملتا ہے۔ وہ ایچ آئی وی سے متاثر نہیں جس کی وجہ وہ سمارتھ کی طرف سے ملنے والی تعلیم اور تعاون کو قرار دیتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ اب گاہکوں سے اصرار کرتی ہیں کہ کونڈم استعمال کیا جائے۔ "ٹیم میں سے کوئی نہ کوئی مسلسل مجھے کہتا رہتا ہے کہ حفاظت، حفاظت، حفاظت۔ حتیٰ کہ اگر کبھی کوئی گاہک زور زبردستی سے غیر محفوظ سیکس کر بھی لے تو مجھے پتہ ہے کہ بعد میں تحفظ کے لیے کہاں جانا ہے۔"

ہر کوئی سمارتھ کی معائنے، مشورے اور علاج کی خدمات کو ناگزیر احتیاطی تدبیر کے طور پر استعمال نہیں کر رہا۔

ستائیس سالہ یوگندر دلی کی ایک تعمیراتی فرم میں آفس بوائے کے طور پر کام کرتی تھیں۔ وہ خود کو مخنث خاتون کی شناخت دیتی ہیں لیکن کام پر یہ چھپانے پر مجبور ہوئیں اور مردوں کے کپڑے پہنتی رہیں۔

اپنے جذبات کے اظہار کا واحد وقت رات کی تاریکی تھی جب وہ عیاشی کی مقبول جگہوں پر جا کر مردوں کے ساتھ پو لیتیں۔  کہتی ہیں کہ "وہبے تکے تعلق ہوتے تھے"۔

"کبھی میں اُن کے گھروں میں چلی جاتی۔ کبھی وہ میرے ہاں آ جاتے۔ اور اگر وہ عوامی پارک میں کرنے پر تیار ہوتے تو ہم وہیں کر لیا کرتے تھے۔"

کچھ سالوں بعد وہ بیمار ہو گئیں۔ اتنی بیمار کہ کام تو درکنار، بولنے اور چلنے کے قابل بھی نہ رہیں۔ خوش قسمت تھیں کہ سمارتھ کے ایک کارندے کو پتہ چلا کہ وہ وہ بیمار ہیں۔ اُن سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ ایچ آئی وی کا معائنہ کرایا ہے۔  

جب ابتدائی معائنے میں وائرس کی نشاندہی ہوئی تو خودکشی کرنے کا فوری خیال آیا۔ کہتی ہیں "میں نے سوچا کہ میری زندگی ختم ہو گئی ہے"۔

سمارتھ کی مشاورت نے اُن کی زندگی بچا لی۔ اور اُنہیں نیا خاندان مہیا کیا۔ ٹیم کے جس رکن نے اُن سے پہلا رابطہ کیا تھا، اُسے "ماں" کہتی ہیں اور کلینک میں باقی سب کو "بہن"۔

"آہستہ آہستہ مجھے سمجھ ائی کہ میری زندگی اہم ہے۔ میں مرنا نہیں چاہتی۔ میری صحت اب بہت بہتر ہے اور میں اپنے حقیقی خاندان کی مدد کے قابل ہو گئی ہو۔"

حتیٰ کہ اُنہیں ایک کالج میں سکیورٹی گارڈ کی نوکری بھی مل گئی ہے جو سمارتھ کے ساتھ ورک شاپس منعقد کرتا ہے اور جہاں اُنہیں اپنی شناخت چھپانا نہیں پڑتی۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین