عورتوں کی سائیکل تو نہ چلی، مذہبی کارکنوں کی چل گئی

پشاور میں خواتین کی ایک مقامی سائیکل ریلی دینی جماعتوں کے کارکنان کے اعتراض کے بعد متنازعہ ہوگئی ہے

منتظمین کی جانب سے سائیکل ریلی کی منسوخی کی خبر پر احتجاج کا ایک طریقہ۔ فوٹو دی انڈیپنڈینٹ

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں خواتین کی تنظیم کی جانب سے سائیکل ریلی کو دینی جماعتوں کے کارکنان کی جانب سے دھمکیاں ملنے کے بعد منسوخ کر دیا گیا ہے۔

خواتین کی ژمونگ ژوندون (ہماری زندگیاں)، پاکستان ڈولیپمنٹ مشن اور پروفیشنل ڈولیپمنٹ آرگنائزیشن نامی ان تنظیموں نے خواتین کی یہ سائیکل ریلی 19 جنوری 2019 بروز ہفتہ سپورٹس کمپلیکس حیات آباد میں منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ریلی میں خواجہ سراوں اور اقلیتی برادری کی عورتوں کی شرکت کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔

جمیعت علماء اسلام اور مجلس علماء، حیات آباد کے کارکنان نے اے ایس پی حیات آباد  نجم الحسن  کے ساتھ ملاقات میں اس ریلی پر پابندی عائد کرنے پر اصرار کیا۔ انہوں نے دوسری صورت میں اس ریلی کو روکنے کے لیے مورخہ 19 جنوری کو سڑکوں پر نکلنے کی دھمکی دے دی۔ ان اراکین نے خواتین کی سائیکل ریلی کو  قومی ثقافت اور اسلامی تعلیمات کے خلاف قرار دیا۔ اس کے بعد پشاور کی انتظامیہ اور ریلی منتظیمین نے اسے ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا۔

پشاور میں خواتین کی سائیکل ریلی منعقد کرانے کے خیال نے اس وقت جنم لیا جب کافی عرصے سے صوبے کی خواتین کی ایک بڑی تعداد میں یہ احساس شدت سے سرائیت کر چکا تھا کہ وہ اپنے ہر کام کے لیے گھر کے مردوں کی محتاج کیوں ہیں جبکہ وہ اپنی تمام تر ذمہ داریاں خود اٹھانے کے قابل ہیں۔ اور یہ بھی کہ آخر کیوں انہیں ان کے جائز حقوق سے روکا جا رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار خواتین گاہے بگاہے سوشل میڈیا کے مختلف فورمز پر کرتی رہی ہیں۔

اسی سوچ کی مالک چند نوجوان خواتین، مردوں کے بھیس میں سائیکل سیکھنےکی غرض سے رات کی تاریکی میں پشاور کی ویران سڑکوں پر سائیکل چلاتی تھیں۔ اور پھر یوں ہوا کہ ایسی ہم خیال خواتین کا حلقہ وسیع تر ہوتا چلا گیا جس کے بعد ایک ریلی نکالنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے لیے پشاور کی انتظامیہ کی مدد بھی حاصل کی گئی۔

خواتین کا یہ گروہ جسمیں 14 سال کی لڑکیوں سے لیکر 45 سال کی عمر تک کی خواتین شامل تھیں، کو  خواتین کی حقوق پر کام کرنے والی تین نوجوان خواتین، ایمان جمیل، وفا وزیر اور زرتاشیہ جمال نے ایک جگہ پر اکٹھا کیا اور اس ریلی کو منظم طریقے سے منعقد کرانے کی ذمہ داری لے لی۔

انڈیپنڈینٹ اردو سے بات کرتے ہوئے وزیرستان سے تعلق رکھنے والی وفا وزیر کا کہنا تھا کہ “اس ریلی کے ذریعے پشاور کی خواتین دنیا کو امن کا پیغام بھی دینا چاہ رہی تھیں۔ لیکن مخالفت کرنے والے خود نہیں چاہتے کہ امن قائم ہو۔ دنیا اگر ہمیں دہشت گرد کہتی ہے تو اس لیے بھی کہ یہاں انتہاپسندی پائی جاتی ہے۔”

پاکستان بھر میں خواتین اکثر عوامی مقامات جیسے کہ بسوں، ویگنوں میں مردوں کی ہراسیت کا شکار ہوتی رہتی ہیں۔

وفا کہتی ہیں کہ ”میں سمجھتی ہوں کہ اگر ہمیں سائیکل چلانے کی آزادی مل جائے گی تو ہم نہ تو کسی کی محتاج رہیں گی اور نہ ہی کسی کی ہراسیت کا شکار ہوں گی۔“

مقامی پولیس اور ادارے فی الحال مذہبی حلقوں کے سامنے بے بس نظر آ رہے ہیں۔ لہذا جیسے ہی احتجاج سامنے آیا، انھوں نے ساِئیکل ریلی کو ملتوی  کرانے کی حامی بھر لی۔ لیکن دوسری جانب ریلی میں حصہ لینے والی خواتین  پر عزم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی طرح سے ہار نہیں مانیں گی۔

ریلی میں حصہ لینے کی ایک امیدوار تئیس سالہ سمانا ایمان کا کہنا ہے کہ ’’اگر مذہبی انتہا پسند ہمیں روکنے کے لیے احتجاج کرسکتے ہیں، سڑکوں پر نکل سکتے ہیں، تو ہم بھی اپنا آپ منوانے کے لیے نکلیں گے۔ ہم بھی ہار نہیں مانیں گے۔ لہذا ریلی ہوگی، بار بار ہوگی اور بڑی شان سے ہوگی۔ جب حق دیا نہیں جاتا تو پھر اسے چھینا جاتا ہے۔“

پشاور میں قائم حیات آباد سپورٹس کمپلیکس کی انتظامیہ کو بھی بعض عناصر کی جانب سے احتجاج کی اطلاعات پر ایک وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا جس میں انہوں نے ایسی کسی سائیکل ریلی کی کمپلیکس میں اس کی جانب سے انقعاد سے انکار کیا اور ان اطلاعات کو غلط قرار دیا۔ اس کا اصرار تھا کہ وہ ایسی کسی ریلی کےمنعقد کیے جانے کے بارے میں آگاہ نہیں ہیں۔

مذہبی انتہا پسند اور قدامت پرست خواتین کے سائیکل چلانے کو ”فحاشی” قرار دے رہے ہیں۔

24 سالہ نورین خالد کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ”یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں، جہاں اگر خواتین خود کو دس پردوں میں چھپا کر بھی سائیکلنگ کرنا چاہتی ہے، تو بھی ان کو بخشا نہیں جاتا۔ اس ریلی کی زیادہ تر خواتین حجاب میں حصہ لینے کی خواہشمند تھیں۔ جن کو سب نے کافی سراہا تھا۔ کیونکہ ہم خواتین کا مقصد زندگی کو آسان بنانا ہے۔ او ر یہ  تب ہی ممکن ہے جب ہمیں برابری کی بنیاد پر حقوق ملیں گے۔“

ریمی ظہور کہتی ہیں ”میں پرجوش تھی کہ یہ ریلی پختونخوا کی خواتین کو بااختیار بنا کر اس خطے میں امن اور سکون کا پیام لے کر آئے گی۔ لیکن ہمارے معاشرے کے ارادے کچھ اور لگتے ہیں۔ مجھے اس ریلی کے منسوخ کیے جانے پر بہت مایوسی ہوئی ہے۔ مردوں کو اپنی منافقانہ سوچ بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسلام نے عورت کو جو مقام دیا ہے، یہ اس پر بھی عمل نہیں کرتے۔ “

                            

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین