پنجاب میں سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری نہیں ہو رہی: وزیر اعظم

ایم ٹی آئی آرڈیننس کے تحت ٹیچنگ ہسپتالوں کا نظام پرائیویٹ ہسپتالوں پر مشتمل بورڈ آف گورنرز کے سپرد ہوجائے گا۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے محرم کے بعد  اس کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔

پنجاب میں ایم ٹی آئی آرڈیننس کے خلاف ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے محرم کے بعد تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے (اے پی  پی)

پنجاب کے ٹیچنگ ہسپتالوں میں انتظامی نجکاری کا آرڈیننس جاری ہونے کے بعد ٹیچنگ ہسپتالوں کا نظام پرائیویٹ ہسپتالوں پر مشتمل بورڈ آف گورنرز کے سپرد ہوجائے گا۔ اس آرڈیننس کو وزیر اعظم عمران خان کی حمایت بھی حاصل ہے تاہم گذشتہ روز انہوں نے ٹوئٹر پہ واضح طور یہ اعلان کیا ہے کہ یہ عمل سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری پر منتج نہیں ہو گا۔  

ان کا کہنا تھا کہ یہ نجکاری نہیں ہے بلکہ سرکاری ہسپتالوں میں اصلاحات لانے کے  ہمارے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سرکاری ہسپتال سرکاری ہی رہیں گے۔

مکمل ٹویٹ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے ایم ٹی آئی آرڈیننس کی حمایت کی اور کہا کہ اس سے سرکاری ہسپتالوں میں بہتری لانے اور جدید انتظامی نظام متعارف کروانے میں مدد ملے گی۔ لیکن اپنی بات پہ زور دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’یہ نجکاری نہیں ہے بلکہ سرکاری ہسپتالوں میں اصلاحات لانے کے ہمارے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔‘ نیز سرکاری ہسپتال سرکاری ہی رہیں گے۔

تاہم  پنجاب کے طبی عملے نے اس اقدام کی بھرپور مخالفت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (وائے ڈی اے) نے پنجاب حکوت کی جانب سے نافذ کیے گئے میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوشنز (ایم ٹی آئی ) آرڈیننس کو مسترد کرتے ہوئے جمہوریت کے خلاف قراردیاہےجبکہ عہدیداروں نےمحرم  کے بعد تحریک چلانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ سات ستمبر کو وائی ڈی اے پنجاب نے جنرل کونسل کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔

گورنر پنجاب اس آرڈیننس پر دستخط کر چکے ہیں اور اس کے لاگو ہونے پر ڈاکٹر، نرسیں اورپیرامیڈیکل سٹاف کا سرکاری ملازمت کا درجہ ختم کر دیا گیا ہے۔

اس کے تحت ٹیچنگ ہسپتالوں کا بورڈ آف گورنرز نجی افراد پر مشتمل ہو گا۔ یہ بورڈ آف گورنرز ٹیچنگ ہسپتالوں میں غریب مریضوں کومفت علاج کی فراہمی یا اس سلسلے کو بند کرنے کے لیے بااختیار ہو گا۔ مالی اور انتظامی اموربھی اسی بورڈ آف گورنرز کے سپرد کر دیے جائیں گے۔

اس کے علاوہ ٹیچنگ ہسپتالوں کا نظام چلانے کے لیے پرنسپل اور ایم ایس کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے اور ڈین، ہسپتال ڈائریکٹر، میڈیکل ڈائریکٹر اور نرسنگ ڈائریکٹر کاعہدہ متعارف کروا دیا گیا ہے۔

حکومتی موقف

دوسری جانب صوبائی وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے دھمکیاں دینے والے ڈاکٹروں کے خلاف تحریک چلانے پر کارروائی کا عندیہ دیدیا  ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ  ایم ٹی آئی آرڈیننس وقت کی ضرورت ہے کیونکہ اسے لاگو کیے بغیر مریضوں کو عالمی معیار کے مطابق صحت کی سہولیات فراہم کرنا ممکن نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا  کہ سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹر ایک یا دو گھنٹے کے لیے ڈیوٹی پر آتے ہیں اور باقی وقت اپنے پرائیویٹ ہسپتال اور کلینک چلاتے ہیں۔

ڈاکٹر یاسمین راشد کے مطابق: ’جو ڈاکٹردھمکیاں دے رہے ہیں انہیں اب پرائیویٹ کلینک چلانے کی بجائے ہسپتالوں میں پوری ڈیوٹی کرنا ہو گی۔‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ سرکاری ہسپتالوں کا انتظامی ڈھانچہ پرائیویٹ بورڈ کے حوالے کرنے سے سزا و جزا کا موثر نظام متعارف ہو گا اور قابل، محنتی ڈاکٹر نرسیں اور سٹاف کی نوکری کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔

 

ان کے بقول: ’پہلے بھی پیڈا ایکٹ کے تحت کام نہ کرنے والے ڈاکٹروں کو نوکریوں سے برطرف کیا جا چکا ہے۔ اب نئے نظام میں بھی وہی طریقہ کار ہو گا تو بلاوجہ کا شور شرابہ اور سیاست کیوں کی جا رہی ہے؟‘

انہوں نے بتایا کہ حکومت سرکاری ہسپتالوں کے علاوہ پہلی بارہیلتھ کارڈ کے ذریعے پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھی غریب مریضوں کو صحت کی سہولیات فراہم کر رہی ہے اور 11 نئے ہسپتال بھی تعمیر کیے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر یاسمین راشد کے مطابق ایم ٹی آئی کے بغیر صحت کے نظام میں بہتری نہیں لائی جا سکتی۔ ’جتنی بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے آرڈیننس واپس نہیں ہو گا۔‘

طبی عملے کے تحفظات

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن  پنجاب کے صدر قاسم اعوان کے مطابق ان کی تنظیم چار ماہ ایم ٹی آئی کے خلاف سراپا احتجاج تھی اور ان  کی سفارشات سٹینڈنگ کمیٹی کے پاس جانی تھیں مگر راتوں رات آرڈیننس پاس کر دیا گیا۔

قاسم اعوان نے کہا:’رات کی تاریکیوں میں ایم ٹی آئی کا جو آرڈنینس گورنر پنجاب کے دستخط سے جاری کیا گیا ہے ہم اس کو مسترد کرتے ہیں۔ اس آرڈیننس کی آڑ میں جس طرح غریب لوگوں سے فری علاج کی سہولیات چھینی جا رہی ہیں اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔‘

ان کے مطابق: ’یہ بل فقط فرد واحد کی مرضی سے منظور کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس قانون کوکسی صورت بھی قابل عمل نہیں ہونے دیں گے۔

سابق صدر وائے ڈی اے ڈاکٹر حامد بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایاکہ حکومت نے پہلے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیاپھر ٹیسٹوں کی فیسیں بڑھا دیں اور اب ہسپتالوں کی نجکاری کر دی گئی۔

انہوں نے کہا  کہ پہلے ہی مریضوں کو مکمل علاج معالجہ کی سہولیات میسر نہیں، ایسے اقدامات سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیاگیاہے۔ ’اگرڈاکٹروں نرسوں اور سٹاف کو ملازمت کا ہی تحفظ حاصل نہیں رہے گا تو وہ علاج پر توجہ کیسے مرکوز کریں گے۔‘

ان کے خیال میں حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات اپنی نااہلی چھپانے کے لیے کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا:’  جس طرح ناتجربہ کارحکومت نے معیشت کو بدحال کیاہے اب نئے نئے تجربوں سے عوام کو صحت کی سہولیات سے بھی محروم کیاجارہاہے۔اصل مسئلہ مینجمنٹ نہیں ہسپتالوں اور وارڈز کی تعدادمیں اضافہ کرنا ہے اور  اس جانب کوئی توجہ نہیں۔ ‘

تاہم انگریزی روزنامہ ’ڈان‘ کے سینئر صحافی آصف چودھری کے خیال میں نیا انتظامی آرڈیننس ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے بہتر ین ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس سے پہلے  جو نظام تھااس کے تحت ڈاکٹرز،نرسیں اور سٹاف مریضوں کو بہتر علاج کی سہولت سے محروم رکھتے ہیں ۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایکٹ سابقہ دورحکومت میں مریضوں کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار ہوا لیکن مصلحتوں کی وجہ سے لاگو نہ ہوسکا۔

ان کا کہنا تھا کہ  موجودہ حکومت اگر میرٹ پر اس نظام کو لاگو کرنے میں کامیاب ہوئی تو مریضوں کو بہتر علاج کے مواقع ملیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت