کوہستان ویڈیو کیس: تین ملزموں کو سزا، مگر باقی دو لڑکیاں کہاں ہیں؟

کوہستان ویڈیو کیس میں ملوث تین ملزمان کو بشام کے مقامی عدالت کی جانب سے عمر قید جبکہ پانچ ملزمان کو ثبوت نہ ہونے کے بنا پر بری کر دیا گیا ہے، مگر یہ تنازع باقی ہے کہ کتنی لڑکیاں قتل ہوئیں۔

یہ سوال اب بھی حل طلب ہے کہ کتنی لڑکیاں قتل ہوئیں؟ (سکرین گریب)

کوہستان ویڈیو کیس میں ملوث تین ملزمان کو بشام کی مقامی عدالت کی جانب سے عمر قید جبکہ پانچ ملزمان کو ثبوت نہ ہونے کے بنا پر بری کر دیا گیا ہے۔

اس کی تصدیق ویڈیو کیس کو منظر عام پر لانے والے افضل کوہستانی کے بھائی بن یاسر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کی، جو اس کیس میں فریق بھی تھے۔

بن یاسر نے بتایا کہ کیس کی سماعت آج ضلع شانگلہ کے قصبے بشام کی عدالت میں ہوئی جس میں ان کے جانب سے وکیل محمد صبور پیش ہوئے۔ انھوں نے بتایا کہ تین ملزمان کو عمر قید جبکہ پانچ ملزمان کو بری کر دیا گیا ہے۔

اس حوالے سے کوہستان میں واقع پالس تھانے کے ایس ایچ او حفیظ الرحمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ سزا تین لڑکیوں کے قتل میں ملوث ہونے کی وجہ سے سنائی گئی ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے باقی دو لڑکیاں کہاں ہیں، تو انھوں نے بتایا کہ وہ زندہ ہیں اور خود عدالت میں پیش بھی ہوئی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بن یاسر نے بتایا کہ یہ کیس کوہستان ویڈیو میں قتل ہونے والے لڑکیوں سے متعلق تھا جس کو ان کے بھائی افضل کوہستانی منظر عام پر لائے تھے اور متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کے لیے کوششیں کرتے رہے۔

یاد رہے افضل کوہستانی کو اسی سال مارچ کے مہینے میں ایبٹ آباد کے ایک بازار میں قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ کیس ایبٹ آباد کی مقامی عدالت میں چل رہا ہے۔

بن یاسر نے فیصلے کے حوالے سے بتایا کہ جن ملزمان کو سزا ہوئی ہے وہ کوہستان ویڈیو میں نظر آنے والی لڑکیوں کے قتل میں ملوث تھے، بلکہ بری ہونے والے ملزمان بھی ان کے ساتھ تھے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ ملزمان ان کے چار بھائیوں کے قتل میں بھی ملوث ہیں۔

بن یاسر نے بتایا کہ کیس کو منظر عام پر لانے کی پاداش میں گاؤں کے لوگ ان کے خلاف ہو گئے اور ان کے چار بھائیوں کو اسی وجہ سے قتل کر دیا گیا۔

تین لڑکیاں قتل ہوئیں یا پانچ؟

اس سارے معاملے میں قتل ہونے والے لڑکیوں کے تعداد میں تضاد نظر آ رہا ہے۔

جس علاقے میں یہ واقعہ ہوا ہے اسی تھانے کے پولیس سربراہ حفیظ الرحمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملزمان کو تین لڑکیوں کے قتل کی بنا پر سزا ہوئی ہے۔

تاہم افضل کوہستانی کے بھائی بن یاسر کا کہنا ہے کہ جس کیس کا فیصلہ آج سنایا گیا ہے وہ تین لڑکیوں کے قتل کا ہے لیکن ویڈیو میں نظر آنے والے باقی دو لڑکیوں کا کوئی پتہ نہیں ہے۔

دوسری جانب پولیس سربراہ کا کہنا ہے کہ وہ دو لڑکیاں زندہ ہیں اور عدالت میں بھی پیش ہوئی تھیں۔

بن یاسر اس بات کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ دو لڑکیاں عدالت میں پیش نہیں ہوئیں اور اس کیس کی تفتیش کے لیے جو کمیشن بنا تھا ان کے ارکان کو بھی جعلی لڑکیاں دکھا کر دھوکہ دیا گیا تھا۔

اس کیس کو منظر عام پر لانے والے افضل کوہستانی بھی پہلے دن سے ہی یہی کہتے تھے کہ ویڈیو میں نظر آنے والے پانچوں لڑکیاں کو قتل کیا گیا۔ 2018 میں جب اس واقعے کا مقدمہ درج کر دیا گیا تو اس وقت چار ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اس وقت کی میڈیا رپورٹوں کے مطابق ملزمان نے تین لڑکیوں کو قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا لیکن افضل کوہستانی نے بتایا تھا کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں اور انھوں نے پانچ لڑکیاں کو شدید تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا ہے اور یہ ملزمان ان کی قبریں کبھی نہیں دکھائیں گے۔

کوہستان ویڈیو سکینڈل کیا ہے؟

سال 2011 میں ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی جس لڑکوں کو ناچتے اور چند لڑکیوں کو گانا گاتے اور تالیاں بجاتے دیکھا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بعد میں پتہ چلا کہ یہ ویڈیو خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان کی ہے۔ ویڈیو کے سوشل میڈیا پر آنے کے بعد2012 میں افضل کوہستانی نے انکشاف کیا کہ اس ویڈیو میں نظر آنے والی پانچوں کی پانچ لڑکیوں کو ایک مقامی جرگے کے فیصلے کی پاداش میں قتل کر دیا گیا ہے۔

وائرل ہونے والے ویڈیو میں تین لڑکوں میں سے دو اس کیس کو منظر عام پر لانے والے افضل کوہستانی کے چھوٹے بھائی تھے جس کے بعد 2013میں افضل کوہستانی کے تین بھائیوں کو ان کے گھر میں قتل کر دیا گیا۔

کیس کو منظر عام پر لانے کے بعد 2018 میں سپریم کورٹ کے حکم پر اس کا مقدمہ درج کر دیا گیا تھا جس میں بعد میں ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ رپورٹوں کے مطابق ملزمان نے بتایا تھا کہ انھوں نے تین لڑکیوں کو قتل کیا تھا لیکن افضل کوہستانی شروع سے کہہ رہے تھے کہ پانچوں لڑکیوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔

بعد میں اسی کیس پر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ازخود نوٹس بھی لیا تھا جبکہ اس کے لیے ایک کمیشن بھی تشکیل دیا گیا تھا لیکن کمیشن کے ارکان جب کوہستان گئے تاکہ ویڈیو میں نظر آنے والے لڑکیوں سے مل سکیں تو انہیں چند لڑکیاں دکھائی گئیں کہ یہ وہی لڑکیاں ہے جو ویڈیو میں موجود تھیں۔

مقامی لوگوں کی جانب سے باقی لڑکیوں کے بارے میں کمیشن کو بتایا گیا کہ ان کے گھر بہت دور ہیں اور آپ لوگ وہاں تک نہیں جا سکتے کیونکہ راستہ بہت دشوار ہے۔

کمیشن نے رپورٹ جمع کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ لڑکیاں زندہ ہیں لیکن کمیشن کے ایک رکن اور انسانی حقوق کی کارکن فرزانہ باری نے شک ظاہر کیا تھا کہ ان کو جو لڑکیاں دکھائی گئی ہیں وہ اصل میں ویڈیو میں نظر آنے والے لڑکیاں نہیں ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان