کشمیریوں کو پُرامن تحریک چلانے کا ہنر سیکھنا ہوگا

کشمیریوں کو یہ ہنر ان برطانوی شہریوں سے سیکھنا ہوگا جو برگزٹ کے خلاف کئی ماہ سے مظاہرے کر رہے ہیں یا پھر ہانگ کانگ کے شہریوں سے، جنہوں نے آخر کار چین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔

اسلام آباد میں جمعرات کو پارلیمان کے سامنے کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مظاہرے کا ایک منظر (اے پی)

لندن میں میرے اکثر دوست کہتے ہیں جمہوریت بڑی خوبصورت چیز ہے مگر میں ہمیشہ کہتی ہوں اس سے بدصورت چیز کوئی ہو نہیں سکتی۔ میں نے جب بھی اسے قریب سے دیکھنا چاہا یہ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح میرا سایہ بن گی اور سات دہائیوں سے اس نے ہر کشمیری کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔

یقین نہ آئے تو ایک کروڑ کشمیریوں سے پوچھ لیجیے جن کو جمہوریت کا ایک بڑا آسیب دن دھاڑے کھائے جا رہا ہے اور دنیا کہتی ہے جمہوریت سایہ نہیں کرتی۔

برطانوی جمہوریت کی شکل مختلف ہے اور شاید دنیا کی واحد جمہوریت ہے جو اب تک آسیب نہیں بنی اور اس نے دنیا کو خاص طور سے برصغیر کو جمہوریت کا درس دے کر مہذب انداز میں بات کرنے کی تہذیب سکھائی تھی۔

تین ستمبر کی دوپہر میں نے بھی لندن میں برطانوی پارلیمان کے باہر جمہوریت کا وہ منظر دیکھنے کی سعی کی، جہاں ایک طرف برطانیہ کے مختلف علاقوں سے آئے ہزاروں کشمیری بھارتی حکومت کی جانب سے سلب کیے گئے اپنے حقوق کی بحالی کے لیے آواز بلند کر رہے تھے تو دوسری طرف خود یہاں کے باشندے وزیر اعظم بورس جانسن کے پارلیمان کو کچھ مدت کے لیے بند کرنے کے اعلان کے خلاف صف آرا ہو رہے تھے جو 30 اکتوبر کو یورپ سے الگ ہونے یا بریگزٹ کے منصوبے کو آخری شکل دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔

برطانوی پولیس کی خاصی تعداد دونوں احتجاجی جلسوں کے آس پاس تعینات تھی۔ دونوں مظاہرے پرامن اور پرسکون انداز میں اپنے حقوق کے لیے نعرے بلند کر رہے تھے۔ چند گھنٹے وہاں رہنے اور میڈیا چینلوں کی زینت بننے کے بعد ہزاروں افراد پر مشتمل جلوس انڈین ہائی کمیشن کی جانب روانہ ہوا۔ اس کے آگے پیچھے برطانوی پولیس بھی ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ پہلا موقعہ نہیں جب کشمیر میں بھارتی حکومت کے پانچ اگست کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے اور یونین ٹریٹری بنانے کے فیصلے کے خلاف اتنا بڑا مظاہرہ ہو رہا تھا۔

اس سے قبل 15 اگست کو بھارتی یوم آزادی کے موقع پر بھارتی سفارت خانے کے سامنے ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوا جس کے دوران بھارت مخالف اور حامیوں کے مابین تو تو، میں میں کی خبریں موصول ہوئیں اور ایک، دو افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔

ظاہر ہے بہت سے ایسے عناصر ہر جگہ موجود ہوتے ہیں جو پرامن طور پر اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے والوں کی آواز دبانا چاہتے ہیں۔ یہاں بھی وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔

بھارت کے حامیوں نے ملک کے حق میں نعرے لگائے جبکہ کئی مخالفین نے جذباتی ہو کر بھارت کے حامیوں سے تو تو، میں میں شروع کر دی۔ بعض عناصر اس تاک میں تھے اور انہوں نے فوراً میڈیا کو اشارہ کر کے اس پر توجہ مرکوز کرائی۔

بقول ایک صحافی ’اس تو تو، میں میں کا اب خوب نقارہ بجایا جائے گا تاکہ برطانیہ کو ان جلوسوں پر پابندی لگانے پر مجبور کیا جاسکے، جس طرح کشمیریوں کو اپنے گھروں میں قید کر کے دبایا جا رہا ہے اسی طرح یہاں بھی ان کا قافیہ تنگ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن برطانیہ بھارت نہیں ہے۔‘

بھارتی میڈیا نے کشمیر پر ہونے والی عالمی سفارت کاری سے لے کر عالمی مذمت کی خبروں یا رپوٹوں کو سرے سے نظر انداز کیا مگر لندن میں معمولی تقاریر اور سفارت خانے پر چند انڈے پھینکنے کے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا حالانکہ ان خبروں کی تشہیر سے ان مظاہروں کی زیادہ تشہیر ہوئی جن پر وہ پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔

تین ستمبر کے اس احتجاج کے دوران بھی بعض شرپسندوں نے جان بوجھ کر بھارتی سفارت خانے پر چند انڈے پھینکے جس کی کوئی ذی شعور شخص حمایت نہیں کر سکتا اور نہ کبھی کرنی چاہیے۔

برطانیہ میں پُرامن احتجاج کرنے یا اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔ آئے روز وہاں فلسطین، چیچنیا یا کشمیری نہ صرف مظاہرے کرتے رہتے ہیں بلکہ اپنے علاقے کے رکن پارلیمان کی حمایت بھی حاصل کرتے آ رہے ہیں۔

یہ سلسلہ خود پنڈت نہرو، جناح یا گاندھی نے بھی آزادی کی جدوجہد کے دوران انگریز سامراج کے خلاف شروع کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے متعلقہ حکومتوں کو اس سے خاصی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اندرونی سطح پر بھلے بھارت نے اپنے میڈیا کو کشمیر پر بات کرنے سے منع کیا ہو لیکن عالمی میڈیا نے کشمیر کی اندرونی صورت حال کی رپورٹنگ کر کے بھارتی میڈیا کی جانب داری پر کئی سوالیہ نشان لگائے ہیں۔

بھارتی میڈیا کشمیر میں ایک ماہ سے زائد عرصے سے عائد سخت بندشوں پر نہ صرف خاموش رہا ہے بلکہ حکومت کی فوٹیج چلا کر صحافت کے اصولوں کو تار تار بھی کر رہا ہے۔ اس کا عالمی میڈیا نے مذاق بھی اڑایا ہے۔

مستقبل میں اگر کبھی ایسا ہوا کہ کشمیری قوم نے بھارت کے حالیہ کشمیر مخالف فیصلے پر اسے معاف بھی کر دیا تو میڈیا پر جو کشمیر مخالف پالیسی کا داغ لگ گیا ہے اس کو کبھی نہیں دھویا جاسکتا۔

عالمی میڈیا نے حکومتِ بھارت کی ان دعوؤں کو بھی مسمار کر دیا کہ کشمیری عوام بھارتی فیصلے سے مطمئن ہیں، خاموش ہیں اور مظاہروں سے اجتناب کرتے ہیں۔

مگر بی بی سی، الجزیرہ یا انڈپینڈنٹ نے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی ایسی تصویر کشی کی کہ خود بھارتی حکام دم بخود رہ گئے کہ اتنی سخت پابندیوں کے باوجود یہ رپورٹنگ کہاں سے ہوئی اور یہ رپورٹر کس طرح اندرونی علاقوں میں پہنچ گئے۔

سری نگر میں خاتون ایک ماہ کے بندش کے بعد پانچ ستمبر کو بحال ہونے پر لینڈلائن ٹیلیفون استعمال کر رہی ہیں۔ (اے پی)


کشمیر اور کشمیر کے حامیوں کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ پرامن مظاہروں کے دوران کسی بھی قسم کے تشدد سے اجتناب کرنا لازمی ہوگا کیونکہ شرپسند عناصر ان مظاہروں میں رخنہ ڈالنے کی بھر پور کوشش کریں گے تاکہ اسے دہشت گردی سے جوڑ کر عالمی رائے عامہ کو بدظن کیا جاسکے۔

میں نے بی بی سی کے ایک نامہ نگار سے پوچھا، جو میرے ہمراہ جلوس کی منظر کشی کر رہے تھے، کہ کیا آپ کے خیال میں کشمیر پھرعالمی مسئلہ بن گیا ہے؟

’کشمیریوں کو عالمی سطح پر اتنی حمایت کبھی نہیں حاصل ہوئی جتنی آج مل رہی ہے۔ وہ چاہے عالمی میڈیا ہو، عالمی ادارے ہوں، اراکین پارلیمان ہوں یا بارسوخ سیاست دان، کشمیریوں کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ایک مربوط پروگرام ترتیب دینا ہوگا اور ہانگ کانگ کی طرز پر احتجاج درج کروانا ہوگا تاکہ حکومت بھارت پر اپنا فیصلہ واپس لینے اور جموں و کشمیر کے مستقبل کا دائمی حل تلاش کرنے پر دباؤ ڈالا جاسکے۔‘ انہوں نے میرے سوال کا جواب بےدھڑک دے دیا۔

کشمیریوں کو پرامن تحریک چلانے کا ہنر سیکھنا ہوگا، جس کی تعلیم انہیں برطانیہ کے ان شہریوں سے حاصل کرنا ہوگی جو برگزٹ کے خلاف کئی ماہ سے پارلیمان کے باہر مظاہرہ کر رہے ہیں اور اس مظاہرے میں کبھی ایک شخص پرچم لیے نعرے بلند کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے تو کبھی سینکڑوں افراد۔ یا پھر ہانگ کانگ کے شہریوں سے سبق سیکھنا ہوگا جنہوں نے کئی ہفتوں سے چینی حکام کی نیند حرام کر دی اور آخر کار چین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر