سپرمین کی اڑان اور ملکی بحران

پاکستان بحران کی زد میں ہے جس سے انکار کرنے والے اُن سے بھی زیادہ سادہ ہیں جنہوں نے سپرمینوں کے کہنے پر اڑنے کے لیے چھلانگ لگائی اور اب زمین پر پڑے کراہ رہے ہیں۔

اس وقت معیشت سر کے بل کشش بےعقل کے باعث زمین کی طرف رواں دواں ہےاور اعداد و شمار ایک خوفناک تصویر پیش کرتے ہیں(اے ایف پی)

افسانوی کردار سپرمین کی نسبت سے ایک دلچسپ قصہ کچھ یوں ہے۔ ایک مرتبہ وہ نیو یارک میں پچاسویں منزل پر اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ گیا تو اس کی کھڑکی کے قریب اس کی خصوصی میز پر بیٹھا ایک جوڑا خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ اس کو غصہ آیا اور اس نے اس جوڑے کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔

وہ ویٹر بن کر ان کے پاس گیا اور اپنے ہاتھ میں ایک مشروب کی طرف اشارہ کر کے بولا اس کے پینے سے ہر کوئی ہوا میں اڑ سکتا ہے۔ آپ کے رومانس میں کئی سو گنا اضافہ ہوگا جب آپ فضاؤں میں بلند ہوتے ہوئے اٹھکیلیاں کریں گے۔

جوڑے کو بےیقینی کی کیفیت سے نکالنے کے لیے اس نے ایک اور خاتون کا ہاتھ پکڑا۔ غٹ غٹ مشروب پیا اور کھڑکی میں سے کود کر ہواؤں میں اڑنے لگا۔ آدھا گھنٹہ چکر لگانے کے بعد بحفاظت ہوٹل میں واپس آ گیا۔

کرتب دیکھ کر میز پر موجود جوڑے کو یقین ہو گیا کہ یہ مشروب خاص ہے۔ انہوں نے فوراً دو بوتلیں چڑھائیں اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آسمانوں کو چھونے کی خواہش دل میں لیے کھڑکی سے کود گئے۔ اوپر جانے کی بجائے دس سیکنڈ میں زمین پر گرے اور ہڈیاں چورا بن گئیں۔ سپرمین آرام سے اپنی کرسی پر براجمان ہوا اور کھانا کھاتے ہوئے عام انسانوں کی بےوقوفی پر گھنٹوں مسکراتا رہا۔

پاکستان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ ہمارے سپرمینوں نے 22 کروڑ عوام کو مہینوں تبدیلی کے مشروب کی خصوصیات سے آگاہ کیا۔ ان کو بتایا اس کے نوش کرنے کے بعد ان سمیت یہ ملک ایک راکٹ کی مانند تنزلی کی پستیوں سے بلند ہو گا اور ترقی کی وہ منزلیں پائے گا کہ دشمن حسد سے اور دوست خوشی سے سکتے میں آ جائیں گے۔

جو لوگ یہ مشروب پینے سے انکاری تھے ان کی ٹھکائی کر کے حلق میں انڈیلنے کا بندوبست کیا گیا۔ جنہوں نے شک کا اظہار کیا ان کو کمرے سے نکال کر غسل خانوں میں بند کر دیا۔ 2018 کے انتخابات میں اس مشروب کی تقسیم اسی انداز سے کی گئی جیسے برطانوی راج نے برصغیر میں چائے کو عام کرنے کے لیے ہر بڑے شہر میں اس کی مفت فراہمی کا بندوبست کیا تھا۔ لوگوں نے جگ بھر بھر کر شقم بھرے، معدے پھول گئے، گالوں میں جگہ باقی نہ رہی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پھر سب نے اڑان کے لیے چھلانگ لگا دی۔ اور اب؟ اس وقت زمین جانکنی میں مبتلا عوام سے بھری ہوئی ہے۔ آسمان پر پہنچنے کا چکمہ ملک کے مستقبل کو درگور کرنے کا وجہ بنتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ وہ نظام جو نیو یارک میں بیٹھے جوڑے کی طرح زندگی کی بہتر پلانگ کرنے میں مصروف تھا اب ایسی افراتفری کا شکار ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔

اربوں روپے کے قرضوں کی معافی کے آرڈیننس جاری کرتے ہیں اور پھر یہ خبر چلواتے ہیں کہ اس آرڈیننس کے بارے میں مجھے ٹی وی سے پتہ چلا اور پھر اس آرڈیننس کو جاری کرنے والے یعنی صدر مملکت کا حوالہ دیے بغیر از خود واپس بھی لے لیتے ہیں۔ اس طرح جاری شدہ آرڈیننس کو واپس لینے کی وہ روایت قائم کرتے ہیں جس کی قانون اور آئین میں کوئی گنجائش موجودہ نہیں۔

کبھی اپنی کرسی پر نعیم الحق کو بیٹھا دیتے ہیں اور کبھی کشمیر کے حوالے سے ہفتہ وار قومی احتجاجی پروگرام کے اجرا کا وعدہ کر کے بھول جاتے ہیں۔ مگر سپرمینوں کی طرف سے تبدیلی کے مشروب کی خصوصیات سے متعلق گمراہ کن خبروں نے سب سے زیادہ تباہی ملک کے معاشی نظام میں پھیلائی ہے۔

اگر آپ حالیہ تاریخ کو یاد کریں تو معاشی قلابازیوں کی ایسی کتاب بنتی ہے جس کا ایک ورق دوسرے سے نہیں ملتا اور جس کے آغاز و اختتام کا کوئی سر پیر نہیں۔ ایک سال پہلے قرضوں سے نجات کے دعوے سن سن کر کان پک گئے تھے۔ ملک کی معیشت کو قرضوں کے چنگل سے چھڑانا اور خود انحصاری پر بنیاد کرنا قومی سلامتی کے اہم ترین اہداف کے طور پر پیش کیے جاتے تھے۔

’مر جائیں گے مگر قرضے نہیں لیں گے‘ وہ نعرہ تھا جس کی بنیاد پر ملکی معیشت کو کھڑکی سے کودنے پر مجبور کیا گیا۔ اس کے بعد کشکول توڑنے اور قومی عزت نفس قائم کرنے کی عزم کو یکسر تبدیل کر دیا گیا۔ ملک کی جھولی کو روایتی قرض دینے والے ممالک کے سامنے ایسے پھیلایا گیا کہ شرمندگی بھی شرمندہ ہونے لگے۔

برابر میں آئی ایم ایف کی منتوں سے ایک ایسا پیکج کیا گیا جو عوام کا خون نچوڑنے والی مشین سے کم نہیں تھا۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر اپنی معاشی ٹیم کو تبدیل کر دیا۔

اپنے معاشی ارسطو اسد عمر کو ایک ناکارہ طفل مکتب کی طرح ٹھڈے رسید کر کے کابینہ بدر کر دیا۔ نیم غیرملکی مہاراجوں کو قومی خزانے کا محافظ بنا دیا۔ قوم کو یہ بتایا گیا کہ اب شربت کی تاثیر کے پُراثر ہونے کا وقت آن پہنچا ہے، اس کے بعد سمت اوپر کی ہو گی اور اڑان نہ ختم ہونے والی۔

اس وقت معیشت سر کے بل کشش بےعقل کے باعث زمین کی طرف رواں دواں ہے۔ اعداد و شمار ایک خوف ناک تصویر پیش کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کے دو ماہ بعد ہی مالیاتی خسارے منہ پھاڑے سامنے کھڑے ہیں۔

معیشت کی ترقی کی شرح 5 اعشاریہ 8 سے گر کر 2 اعشاریہ 6 کے گرد گھوم رہی ہے اور تمام بین الاقوامی ادارے اس پر متفق ہیں کہ اگلے دو سالوں میں یہ 2 اعشاریہ 4 سے 2اعشاریہ 9 سے آگے نہیں جائے گی۔

مجموعی ملکی پیداوار میں پچاس بلین ڈالرز کی کمی ہوئی ہے۔ اتنی ہی کمی سٹاک مارکیٹ میں ہوئی اور پھر روپے کی قدر میں کمی کر کے بین الاقوامی قرضوں میں 40 فیصد اضافہ کر دیا گیا۔ ایک سال میں اندرونی قرضے پچھلے پانچ سال میں لیے گئے قرضوں کے نصف سے بھی زیادہ ہیں۔ آئی ایم ایف سے طے شدہ شرائط کے اہداف اور ایک سال کے نتائج میں 1500ارب روپے کا فرق ہے۔

یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ آئی ایم ایف قرضے کی قسط دینے کے دو ماہ کے اندر ہی ایک خصوصی مشن روانہ کر دے تاکہ قرضہ لینے والی حکومت کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے۔

نہ کوئی نیا پراجیکٹ شروع ہوا، نہ نئی نوکریوں کی کوئی خبر ہے۔ مکانات کی تعمیر کے لیے کروڑوں روپے فارمز کی صورت میں حاصل کرنے کے بعد ایک چھت بھی میسر نہیں ہو سکی۔ بڑی کمپنیاں کاروبار سکیڑ رہی ہیں اور بزنس مین دکان داروں سمیت ہر طرف ٹکریں مار رہا ہے۔

مہنگائی حکومت کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق اس وقت تاریخی سطح پر ہے۔ صرف کیمروں کے سامنے کھڑے ہو کر معدب میڈیا کے اراکین کو طوطا مینا کی کہانیاں سنانے والے ٹوئٹر ٹارزن متحرک ہیں۔ ان کے علاوہ یہ ملک ایک بدترین سیاسی حبس اور معاشی تنزلی کا شکار ہے۔

پچھلے دنوں جب اسد عمر نے آئی ایم ایف کے اہداف پورے نہ ہونے کے معاملے کو مالیاتی کمیٹی کے ایک اجلاس کے دوران اٹھایا تو وزیر اعظم عمران خان نے ان کو طلب کر کے پوچھا معاملہ کیا ہے؟ نہ جانے وزیر اعظم کو ہر چھوٹے اور بڑے معاملے کے بارے میں بتانا کیوں پڑتا ہے؟ کیا بنی گالہ کی پہاڑی پاکستان کی سرزمین سے اتنی اونچی ہے کہ وہاں سے حقیقت نظر سے اوجھل ہی رہتی ہے؟

وہ کون سی کیفیت ہے جس میں سے وزیر اعظم کو ہر روز کچوکے لگا کر نکالنا پڑتا ہے تاکہ وہ اپنی ناک کے نیچے ہونے والی فاش غلطیوں کو درست کریں اور اس عمل میں ہونے والی مزید غلطیوں کے تدارک کے لیے چند دن بعد دوبارہ بندوبست کریں۔

بہرحال جن سپر مینوں نے عوام سمیت نظام کی چھلانگ لگوا کر کرسی حاصل کر لی ہے ان کے سامنے زمین پر مچنے والے غدر سے خود کو محفوظ رکھنے کا بڑا چیلینج موجود ہے۔

چھلانگ لگانے والوں کی بے وقوفی پر ہنسنے کا وقت اب ختم ہو گیا ہے۔ یہ ملک ایک بحران کی زد میں ہے جس سے انکار کرنے والے ان سے بھی زیادہ سادہ ہیں جنہوں نے ان کے اصرار پر آسمان پر اڑنے کے لیے چھلانگ لگائی اور اب زمین پر پڑے کراہ رہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ