ساہیوال: کیا بچوں کے میڈیا انٹرویوز ضروری تھے؟

صوبہ پنجاب کے شہر ساہیوال میں پولیس کے ہاتھوں مشتبہ افراد کی ہلاکت کے بعد وہاں موجود بچوں کو میڈیا نے ایک مرتبہ پھر آڑھے ہاتھوں لیا۔

لاہور میں مقامی افراد ایک خاندان کی پولیس کے ہاتھوں ساہیوال میں ہلاکت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے۔ فوٹو اے پی  

ساہیوال میں مقتولین کے بچے پاکستانی میڈیا کی توجہ کا مرکز  رہے۔ ان بچوں کے انٹرویوز ٹیلی ویژن چینلوں پر چلائے گئے اور ان سے بطور عینی شاہدین سوالات بھی پوچھے گئے ۔ ایک نجی چینل پر ایک بچی چیخ چیخ کے رو رہی تھی لیکن پھر بھی مائک اور کیمرا ان کے سامنے رکھا گیا اور اسی فوٹیج کو سکرین پر بار بار دکھایا جاتا رہا۔

سوشل میڈیا سمیت پاکستانی میڈیا میں کچھ حلقوں کی طرف سے میڈیا کی اس رویے کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ساہیوال کی ایف آئی آر درج کی گئی ہے جس میں مقتولین کے بچوں کو بطور شاہدین نامزد کیا گیا ہے۔

قانونی ماہرین کے مطابق اس قسم کے واقعات میں بچوں کے ساتھ ایسے وقت میں بات کرنا کہ وہ خود سہمے اور ڈرے ہوئے ہوں نہایت ہی ناپسندیدہ اقدام ہے۔

بعض میڈیا کے کارکنان بچوں کے انٹرویوز کرنے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ہوسکتا ہے یہ انٹرویوز مقتولین کو انصاف فراہم کرنے میں فائدہ دیں۔

اس بارے میں سپریم کورٹ کے وکیل محمد فہیم ولی نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ قانون میں بچوں کو کسی بھی مقدمے میں بطور گواہ پیش کرنے اور اس کے بیانات ریکارڈ کرنے کے لیے ایک طریقہ کار موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب کیس میں کوئی بچہ یا بچی جن کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہو، اور ان کو بطور گواہ پیش کرنے کی ضرورت ہو تو جج پہلے اس کو طلب کر ایک ٹیسٹ لیتا ہے۔

اس ٹیسٹ میں ان سے کچھ بنیادی اور آسان سوالات پوچھے جاتے ہیں جیسا کہ اس کا نام، رہائشی پتہ، والد اور والدہ کے نام۔

‘جب بچہ یا بچی اس قسم کے بنیادی سوالات کے جوابات درست دیتے ہیں اور جج اس بات پر مطمئن ہوجاتا ہے کہ یہ بچہ اپنے حواس میں ہے اور ان کو چیزوں کی درست سمت میں اندازہ ہوتا ہے تب ہی ان کی گواہی قبول کی جاتی ہے اور اس کو بیان ریکارڈ کرنے کے لیے ایک سرٹیفیکیٹ دیا جاتا ہے۔’

فہیم ولی نے مزید بتایا کہ میڈیا انٹرویوز کبھی کبھار مقدمے کو خراب کر دیتے ہیں کیونکہ کبھی کبھار ایسا ہوجاتا ہے کہ شاہد کسی بھی سانحے کے دوران ڈر اور ٹرامے میں ہوتا ہے تو میڈیا کے سامنے کچھ اور کہہ دیتا ہے جبکہ بعد میں عدالت کے سامنے ان کا بیان تبدیل ہوجاتا ہے۔

کیا قوانین موجود ہیں؟

پاکستانی الیکٹرانک میڈیا اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا) سمیت بین القوامی میڈیا کے اداروں نے اس کے لیے قواعدو ضوابط وضع کیے ہے جس میں بچوں کے میڈیا پر لانے کے بارے میں واضح ہدایات دی گئی ہیں۔

برطانوی اخبارات پر نظر رکھنے والے ادارہ انڈپینڈنٹ پریس سٹینڈرڈز کی اخبارات کی لیے ضابطہ اخلاق میں لکھا گیا ہے کہ کوئی بھی میڈیا کا ادارہ 16 سال سے کم عمر کے کسی بھی بچے کی تصویر یا ویڈیو اس وقت تک نہیں لیں گے جب تک ان کے والدین یا سرپرست سے اجازت نہ لے لی جائے۔

اسی ضابطہ اخلاق میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اگر کوئی میڈیا ادارہ سکول میں کے بچوں کوانٹرویو کرنا چاہتا ہے تو پہلے سکول کے سربراہ سے اجازت لینا لازمی ہوگی اس شرط پر کہ اس سے بچوں کے سکول کے اوقات میں کوئی خلل نہ ڈالا جائے۔

پاکستان میں پیمرا نے بھی میڈیا کے لیے اس قسم کا ضابطہ اخلاق بنایا ہے لیکن میڈیا کے ادارے اس کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔

پیمرا کے ضابطہ اخلاق میں بھی یہ لکھا گیا ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کے انٹرویوز ان کے والدین کی اجازت کے بغیر کسی بھی صورت نشر نہیں ہوں گے۔

‘عوام میں آگہی کی ضرورت’

سماجی کارکن جبران ناصر نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ بچوں سے اس قسم کے سوالات کے ان کو ماں کی یاد آتی اس وقت میں کہ ان بچوں نے اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھ لیا ہو نامناسب ہیں۔ ان کے مطابق اس کی بنیادی وجہ رپورٹرز کی تربیت کا فقدان ہے۔

انہوں نے بتایا کہ میڈیا منیجرز رپورٹرز کو یہی کہتے ہیں کہ ان کے لیے مواد لا کر دو لیکن ان کی تربت کا بندوبست نہیں کرتے۔

‘پیمرا کا ضابطہ اخلاق موجود ہے لیکن اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اور اس مد میں پیمرا کو ایک سماجی حلقوں کی طرف سے ایک خط بھی لکھا جا سکتا ہے کہ وہ ان قوانین کو نافذ ہونے کو یقینی بنائیں۔

جبران ناصرکے مطابق دوسری اہم بات یہ ہے کہ عوام میں بھی یہ آگاہی ہونی چاہیے کہ وہ اس قسم کے سانحات کے دوران کوشیش کریں کہ میڈیا ان کے بچوں تک نہ پہنچ جائیں۔

پاکستان میں عموما دیکھا یہ گیا ہے کہ قوانین موجود ہوتے ہیں لیکن ان کی آگہی نہیں ہوتی۔ ساہیوال کا واقع نے بھی ایک مرتبہ یہ ثابت کر دیا ہے۔ محسوس یہی ہوتا ہے کہ پاکستانی میڈیا میں غلطی کرکے سیکھنے کی روش جاری رہے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل