جنگ کا نشانہ عورت ہی کیوں بنتی ہے؟

عورت کی امن کی اس خواہش کی وجہ سے اکثر یہ بحث کی جاتی ہے کہ اگر دنیا میں عورت راج ہو جائے تو وہ جنگ کو ختم کر کے امن قائم کر دے گی۔

رضیہ سلطان کی زندگی پر زی ٹی وی پر ایک ڈراما بھی چل چکا ہے (Zee5)

عام طور سے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ عورت جنگ کے خلاف اور امن کی حامی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت کے لیے سب سے بڑی اذیت یہ ہوتی ہے کہ جنگ میں اس کے جوان بچے جن کی وہ پرورش کرتی ہے اور دیکھ بھال کر کے انہیں بڑا کرتی ہے وہ قتل و خونریزی میں شریک ہو کر خود بھی مرتے ہیں اور دوسروں کو بھی مارتے ہیں۔

عورت کی امن کی اس خواہش کی وجہ سے اکثر یہ بحث کی جاتی ہے کہ اگر دنیا میں عورت راج ہو جائے تو وہ جنگ کو ختم کر کے امن قائم کر دے گی۔

لیکن خواہشات کے برعکس تاریخ ہمیں کچھ اور ہی بتاتی ہے۔ پدرسری معاشرے میں جنگ طاقت اور قوت کا اظہار تھی اس لیے اسے مردوں کے لیے اپنی بہادری اور شجاعت کے اظہار کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ عورت چونکہ جسمانی طور سے کمزور تھی اس کی جنگ میں شمولیت کی ہمت افزائی نہیں کی جاتی تھی۔

جنوبی امریکہ کی ایزٹک تہذیب میں اگر عورت بچے کی پیدائش کے وقت جان دے دیتی تھی تو اس کو بہادری سمجھا جاتا تھا اور اعزاز کے ساتھ اس کی تدفین کی جاتی تھی۔ اس کی قبر پر یادگاری کتبہ بھی نصب کیا جاتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاریخ میں پدرسری کی روایات اس قدر مستحکم ہو گئی تھیں کہ عورتیں بھی وفاداری کے ساتھ ان پر عمل کرتی تھیں۔ جنگ کی صورت میں مرد کے لیے سب سے بڑی بےعزتی یہ تھی کہ وہ جنگ سے فرار ہو جائے۔ یونان کی ریاست سپارٹا میں جب بیٹا جنگ پر جاتا تھا تو اس کی ماں کہا کرتی تھی کہ یا تو فاتح ہو کر ڈھال کے ساتھ واپس آﺅ یا تمہاری لاش ڈھال پر آئے۔ اس وقت رسم تھی کہ مردہ سپاہی کو اسی کی ڈھال پر لٹا کر میدانِ جنگ سے واپس لایا جاتا تھا۔

ایک واقعے میں جب ایک فوجی کے تمام ساتھی جنگ میں مارے گئے اور وہ اکیلا گھر واپس آیا تو اس کی ماں نے غصے میں اسے قتل کر دیا کہ تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ کیوں نہیں مارا گیا؟

 ہندوستان میں راجپوتوں میں یہ روایت تھی کہ اگر کوئی فرار ہو کر گھر واپس آتا تھا تو اس پر گھر کے دروازے بند کر دیے جاتے تھے۔

یہ دستور بھی تھا کہ فوج کے ساتھ عورتیں بھی میدان جنگ میں جایا کرتی تھیں۔ ان کے فرائض میں تھا کہ جب مرد جنگ میں مصروف ہو تو وہ خیموں کی حفاظت کریں اور زخمی فوجیوں کی دیکھ بھال بھی کریں۔ جنگ یرموک (636 عیسوی) میں جب عربوں اور رومیوں کے درمیان جنگ ہو رہی تھی تو ایک موقعے پر عرب فوجی میدان جنگ سے فرار ہو کر خیموں کی طرف آئے۔ یہ دیکھ کر عورتوں نے ان پر سخت لعن طعن کی اور انہیں مجبور کر دیا کہ واپس جا کر جنگ میں شریک ہوں۔

اس کے بعد سے عرب فوجی کہا کرتے تھے کہ وہ اپنے دشمنوں سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا اپنی عورتوں سے۔ یرموک کی جنگ میں بالآخر عربوں کو فتح ہوئی۔ اس فتح میں یقیناً کچھ حصہ عورتوں کا بھی تھا۔

لیکن بحیثیت مجموعی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جنگ عورتوں کے لیے تباہ کن ہوتی تھی۔ خاص طور سے شکست کی صورت میں فاتح افواج دوسرے مال غنیمت کی طرح عورتوں کو بھی اسی کا ایک حصہ سمجھتے ہوئے عورتوں کو چاہے ان کا تعلق شاہی خاندان سے یا نچلے طبقے سے کنیزیں سے ہوتا تھا بنا کر یا تو فوجیوں میں تقسیم کر دیتے تھے یا بازار میں فروخت کر دیتے تھے۔

اسی وجہ سے ٹروجن جنگ کے موقع پر جب ہیکٹر کی بیوی نے اسے جنگ سے روکا اور کہا کہ شکست کی صورت میں اسے کنیز بنا لیا جائے گا تو ہیکٹر نے جنگ پر اس لیے اصرار کیا کہ یہ میری عزت کا سوال ہے۔

ہندوستان پر جب نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی نے حملہ کیا تو وہ بھی مغل سلطنت کی عورتوں کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔ اس لیے جنگ عورتوں کے لیے خاص طور سے مہلک ہوتی تھی کیونکہ یہ ان کی زندگیوں کو تباہ کر دیتی تھی۔

لیکن جب حملہ آوروں کی صورت میں جنگ لڑنا لازمی ہو جائے تو عورتیں بھی اس میں بحیثیت سربراہ کے شریک ہو جاتی تھیں۔

تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ہیں کہ جب عورتوں نے جنگ میں شرکت کرکے بہادری کا ثبوت دیا۔ انگلستان کی تاریخ میں اس کی مثال ملکہ بوڈیکا (وفات 61 عیسوی) کی ہے اس نے رومیوں کے خلاف جنگیں کیں جنہوں نے انگلستان کے ایک حصے پر قبضہ کر کے اپنا تسلط قائم کر لیا تھا اور مقامی باشندوں کے ساتھ سختی سے پیش آتے تھے اور ٹیکسوں کا بوجھ ان پر لاد رکھا تھا۔

بوڈیکا نے جب بغاوت کی اور ابتدا میں اسے شکست ہوئی تو رومیوں نے اس کی دونوں بیٹیوں کا اس کے سامنے ریپ کیا۔ اس واقعے نے اس میں انتقام کی آگ بھڑکا دی اور اس نے انگلستان کے مختلف قبائل کو اکٹھا کر کے رومیوں کے خلاف اعلان جنگ کیا۔

لیکن رومی فوجی لحاظ سے تربیت یافتہ اور فن جنگ کے ماہر تھے جبکہ بوڈیکا کی فوج ایک مجمعے کی شکل میں تھی اس لیے اسے شکست ہوئی۔ اس وقت کی باغی بوڈیکا آج کے انگلستان کی ہیروئن ہے جس نے ملک کی حفاظت کے لیے جان دی۔

جنگجو عورتوں میں ہم رضیہ سلطان (وفات 1240) کی مثال دیکھتے ہیں جس نے مردوں کی طرح لباس پہن کر اپنے اقتدار کے لیے جنگ لڑی مگر شکست کھائی۔ آج اسے تحریک نسواں میں ہیروئین کا درجہ دیا جاتا ہے۔

ایک اور مثال عیسائی راہبہ جون آف آرک (وفات 1431) کی ہے جس نے فرانس کی حمایت میں انگریز فوجوں سے جنگ لڑی۔ ابتدا میں یہ کامیاب رہی مگر آخر میں اسے شکست ہوئی اور بطور قیدی اس پر عیسائی مذہب سے منحرف ہونے کا الزام لگایا گیا اور 19 سال کی عمر میں اسے زندہ جلا دیا گیا۔

البتہ بعد میں اسے کیتھولک چرچ نے سینٹ کا درجہ دیا اور جدید فرانس کی تاریخ میں یہ فرانس کی محب وطن اور ہیروئن ہے جسے ایک آئیڈیل کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔

ہمیں ہندوستان میں بھی جنگجو عورتوں کی کئی مثالیں ملتی ہیں جب جنگ ان کے لیے لازم ہوگئی تھی۔ 1857 کی جنگ آزادی میں کئی عورتوں نے جنگ میں شرکت کی اور جانیں دیں۔ ان میں جھانسی کی رانی لکشمی بائی اور لکھنو کی حضرت محل  قابل ذکر ہیں۔

لکشمی بائی نے انگریزی فوجوں سے لڑتے ہوئے جان دی۔ حضرت محل کو جب شکست ہوئی تو انہوں نے جلاوطنی کو ترجیح دی اور نیپال چل گئیں جہاں آج بھی ان کا مقبرہ خستہ حالت میں ہے۔ البتہ ہندوستان اور پاکستان دونوں نے ان کی خدمات پر کوئی توجہ نہیں دی۔

پہلی جنگ عظیم کے موقع پر جبکہ مرد محاذ پر لڑنے کے لیے چلے گئے تھے۔ اس موقعے پر عورتوں نے فیکٹریوں میں ان کاموں کو سنبھالا جنہیں اب تک مرد اپنی اجارہ داری سمجھتے تھے۔ جنگ کے دوران انہیں جو آزادی ملی اور پیشہ وارانہ سرگرمیوں میں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کیا اور جنگ کے بعد واپس گھر جانا قبول نہیں کیا اور اپنے حقوق کے لیے سیاسی جدوجہد کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو ووٹ کا حق مل گیا۔

یہ وہ حق تھا جس کے لیے انہوں نے ماضی میں بڑی قربانیاں دی تھیں۔

دنیا میں جنگوں کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ عورتیں امن کی خواہشات کے باوجود پدرسری کی روایات کا پوری طرح سے مقابلہ نہیں کر سکیں۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ کیا مہلک ہتھیاروں کی موجودگی میں جنگ کا خاتمہ ہو سکے گا؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ