فوجی عدالتیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہی ہیں: آئی سی جے

بین الاقوامی تنظیم آئی سی جے کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں پر اس قسم کی عدالتیں قائم کی گئیں ہیں جن میں ’تیز انصاف’ کی آڑ میں مختلف قوانین کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

 کراچی میں پی ٹی ایم کے رہنما  عالم زیب خان کو کراچی کی ایک عدالت میں پیش کیاجا رہا ہے۔ فوٹو - اے ایف پی

قانون دانوں کے بین الاقوامی کمیشن (آئی سی جے ) نے پاکستان میں فوجی عدالتوں کے قیام پر رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔

آئی سی جے یعنی انٹرنشنل کمیشن آف جوریسٹس قانونی ماہرین پر مشتمل ایک بین الاقوامی تنظیم ہے۔ یہ تنظیم پوری دنیا کے معتبر قانونی ماہرین پر مشتمل ہے جو دنیا میں قانونی نوعیت کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھتی ہے۔

 اس تنظیم نے گذشتہ ہفتے پاکستان میں موجود فوجی عدالتوں پر ایک خصوصی رپورٹ جاری کی ہے جس میں انہوں نے فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

اس رپورٹ میں فوجی عدالتوں کے مخلتف فیصلوں کا تجزیہ کیا گیا ہے اور بعد ازاں بتایا گیا ہے کہ ان فیصلوں میں ملزمان کو ان کے جائز انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔

پاکستان کی سابق وفاقی حکومت نے آرمی پبلک سکول کے سانحے کے بعد 11 فوجی عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ملزمان کی ٖمقدمے تیزی سے سنے جا سکیں۔

اس مقصد کے لیے قومی اسمبلی سے اکیسویں ترمیم منظور کی گئی اور ملٹری ایکٹ میں ترمیم کے بعد فوجی عدالتوں کا دائرہ اختیار عام لوگوں تک بڑھایا گیا۔

پہلے فوجی عدالتیں دو برس کے لیے بنائی گئی تھیں لیکن 2017 میں ان عدالتوں کو مزید دو برس تک دوبارہ توسیع دے دی گئی۔

آئی سی جے نے اپنے 22 صفحات پر مشتمل تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان میں ‘فوجی انصاف‘ کا نظام قانونی ذمہ داریوں کے یکسر خلاف ہے۔

‘ملٹری جسٹس کا نظام پاکستان کی اس سیاسی عزم کے بھی خلاف ہے جس میں انہوں نے ملزم کو زندگی کا حق، شفاف سماعت اور عدالتوں کے آزادانہ طرز کے انصاف کا وعدہ کیا ہے۔’

فوجی عدالتوں کی طرف سے تاحال دی گئی سزاؤں کی تعداد

رپورٹ کے مطابق پاکستان کی فوجی عدالتوں نے جنوری 2019 تک 646 مقدمات میں 641 ملزمان کو سزائیں دی ہیں جن میں ممکنہ طور پر بچے بھی شامل ہیں۔ ان مقدمات میں سزا پانے والے ملزمان کا تناسب 99.2 فیصد ہے۔

ان میں سے 345 کو سزائے موت اور 296 کو قید کی سزائیں سنائی گئ ہیں جبکہ پانچ ملزمان کو بری کر دیا گیا ہے۔

سزائے موت پانے والے 356 مجرمان میں سے 56 کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے جو نہایت ہی‘غیر منصفانہ‘ ہے کیونکہ رپورٹ کے مطا بق جتنی بھی سزائیں دی گئی ہیں ان میں شفافیت نظر نہیں آتی۔

رپورٹ کے مطابق ان مقدمات کی سماعت کے بارے میں عوام کو یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کیسز کب اور کس وقت سنے گئے نیز ملزمان کو کن جرائم اور دفعات کے تحت سزائیں دی گئی ہیں؟

اسی رپورٹ کے مطابق ان تمام فیصلوں میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ان ملزمان کے کس قسم کے شواہد اکھٹے کیے گئے تھے جن کی بنا پر ان کو سزائیں دی گئی ہیں۔

’ان سزاوں کی تفصیلات منظر عام پہ نہیں لائی گئیں اور نہ ہی ان عدالتوں میں ہونے والی کارروائی کی کوئی تفصیلات لوگوں تک پہنچائی گئی ہیں۔’

فوجی عدالتوں میں ملزمان کی مخلتف نوعیت کے مقدمات سنے گئے ہیں جن میں آرمی پبلک سکول، صفورہ چوک کراچی میں اسماعیلی فرقہ کی بس پر حملہ، مستونگ میں شیعہ بس پر حملہ، سماجی کارکن سبین محمود کا قتل، سیدو شریف ائیرپورٹ پر حملہ اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملے میں ملوث ملزمان شامل تھے۔

پشاور ہائی کورٹ کی طرف سے فوجی عدالتوں کے فیصلے کی معطلی

اسی رپورٹ میں ثبوت کے طور پر پشاور ہائی کورٹ کے گذشتہ سال اکتوبر کے ایک فیصلے کا بھی ذکر کیا گیا  ہے۔ اس فیصلے میں پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں کے اس فیصلے کو معطل کیا جس میں انہوں نے 70 سے زائد ملزمان کو مخلتف نوعیت کی سزائیں سنائی تھیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے ان ملزمان کی سزائیں اسی لیے معطل کی تھیں کیونکہ فیصلوں میں انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا اور اس میں بین الاقوامی عدالتی قوانین کی بھی خلاف ورزی کی گئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق فوجی عدالتوں کے ان فیصلوں میں تقریبا تمام ملزمان کے ایک جیسےاعتراف جرم والے بیانات ریکارڈ کیے گئے ہیں، جب کہ ملزمان کو صرف ایک نجی وکیل مہیا کیا گیا تھا۔

 رپورٹ کے مطابق ملزمان کو اپنے خاندان، وکیل یا کسی بھی باہر کے شخص سے ملنے نہیں دیا گیا تھا۔ ‘اس فیصلے میں یہ بھی واضح نہیں تھا کہ یہ ملزمان کب، کس وقت اور کس جرم میں پکڑے گئے تھے۔”

رپورٹ کے مطابق ”ملزمان سے اعتراف جرم کے بیانات ان کی گرفتاری کے کئی برس بعد ریکارڈ کیے گئے تھے جب کہ سارے بیانات کا رسم الخط بھی ایک جیسا پایا گیا۔’

پشاور ہائی کورٹ میں فوجی عدالتوں کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کی معطلی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلچ کیا گیا ہے اور اس مقدمے کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔

فوجی عدالتیں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں

آئی سی جے کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں فوجی عدالتوں میں عام لوگوں کے مقدمات چلانا بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزی ہے جب کہ پاکستان بھی ان معاہدوں کی پاسداری کرنے کا پابند ہے۔

ان بین الاقوامی قوانین میں ایک انٹرنیشل کوویننٹ ان سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس( آئی سی سی پی آر) جس کا حکومت پاکستان بھی پابند ہے۔ اس کی شق نمبر 14 میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ کسی بھی ملزم کو شفاف اور آزاد سماعت اور غیرجانبدار عدالت میں کیس لڑنے سے محروم نہیں رکھا جائے گا نیز یہ قانون تمام سول اور ملٹری عدالتوں پر لاگو ہوتا ہے۔

یواین کے قوانین میں بھی یہ لکھا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں کو صرف فوجی اہلکاروں کے مقدمات تک محدود ہونا چاہیے جو ملٹری نوعیت کے ہوں۔

آئی سی جے کی پاکستان میں انٹرنیشنل لیگل اٰڈوائزر ریما عمر نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ فوجی عدالتیں دنیا کے کئی ممالک میں بنائی گئی ہیں جہاں عام لوگوں کے مقدمات سنے جاتے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں پر اس قسم کی عدالتیں قائم کی گئیں ہیں اور جہاں پر ’تیز انصاف’ کی آڑ میں مخلتف قوانین نظرانداز کیے جاتے ہیں۔

‘اس قسم کے عدالتوں میں فوجی افسران جج بھی ہوتے ہیں، سزا دینے والے بھی اور سزا سنانے والے بھی۔ ان عدالتوں میں بیرونی عوامل کا بہت کم عمل دخل ہوتا ہے۔

ریما کے مطابق دنیا کے کسی بھی ملک میں جب اس قسم کی عدالتیں بنائی گئیں تو وہاں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رپورٹ ہوئی ہیں۔

یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کہ پاکستان میں ان عدالتوں کو مزید توسیع دینے کی بات چل رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سمیت حزب اختلاف کی کئی جماعتوں نے فوجی عدالتوں کو مزید توسیع نہ دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ان عدالتوں کی مدت مارچ 2019 میں ختم ہو رہی ہے۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان