کیا بونیر میں طالبان دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں؟

خیبر پختونخوا کے آئی جی پی محمد نعیم کے مطابق بونیر میں آپریشن چل رہا ہے اور ’شرپسند عناصر یا یہ زمین چھوڑیں گے یا سدھر جائیں گے۔‘

25 اپریل 2009 کی اس تصویر میں طالبان کے انخلا کے بعد  پاکستانی فوجی اور پولیس ضلع بونیر میں پیٹرولنگ کر رہے ہیں (اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں گذشتہ تین ماہ سے طالبان کے دوبارہ سر اٹھانے کے بارے میں خبریں گردش میں تھیں جن کی تصدیق آخر کار صوبےکے پولیس سربراہ محمد نعیم نے رواں ہفتے کی۔ بونیر سے صوبائی اسمبلی کے ایک رکن نے بھی ان  افراد سے دھمکی وصول ہونے کی تصدیق کی ہے۔

منگل کے شب ایک پریس کانفرنس میں پولیس سربراہ نے کہا کہ ملاکنڈ میں کچھ ’شرپسند‘ عناصر سر اٹھا نے کی کوشش کر رہے ہیں اور  بونیر میں ان کے خلاف آپریشن چل رہا ہے اور’شرپسند عناصر یا یہ زمین چھوڑیں گے یا سدھر جائیں گے۔‘

ضلع بونیر شدت پسندی سے زیادہ متاثر ہونے والے ضلعوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ 2007 کے بعد سوات کی طرح بونیر میں 2009 میں ملٹری آپریشن کے ذریعے شدت پسندوں کو ختم کر دیا گیا لیکن حال ہی میں ایک مقامی کمانڈر کی سربراہی میں کچھ عناصر بونیر کے ایلم پہاڑ میں دیکھے گئے ہیں۔

ضلع بونیر کے ایک سینئیر پولیس افسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پچھلے تین مہینوں سے ان عناصر کے خلاف مختلف آپریشنز کیے جا رہے ہیں تاکہ ان کو ختم کیا جائے۔

انہوں نے بتایا: ’یہ دس بارہ کے قریب لوگ ہیں جو ایک مقامی کمانڈر عزیز الرحمان کی سربراہی میں سرگرم ہیں اور ایلم کے پہاڑوں میں چھپے ہوئے ہیں۔‘

پولیس افسر کے مطابق یہ کمانڈر بونیر کے رہائشی ہیں اور اس سے پہلے طالبان کے ساتھ رہ چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس کمانڈر کے تین بھائی بھی شدت پسندوں کے ساتھ تعلق کے بنا پر بونیر میں ہلاک کیے جا چکے ہیں جبکہ یہ اب تک ان کارروائیوں میں ملوث ہیں۔

آپریشن کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان فوج اور پولیس ان عناصر کے خلاف مشترکہ کارروائیاں کر رہے ہیں، ان کے کچھ سہولت کاروں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے اور امید ہے کہ جلد ہی ان پر قابو پا لیا جا ئے گا۔

ان عناصر کی اب تک کی جانے والی کارروائیوں کے بارے میں جب پولیس افسر سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پہلے دنوں میں یہ لوگ پہاڑ سے نیچے اتر کر لوگوں کو دھمکیاں دیتے تھے کہ پردہ کرو اور اسی طرح غیر ریاستی قوانین کے اطلاق کے بارے میں کہتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ اب ان کو پہاڑ تک محدود کیا گیا ہے اور ان کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے تاکہ ان کا صفایا کیا جائے۔

اسمبلی رکن کو دھمکی

اس حوالے سے عام لوگوں سمیت بونیر کے سیاسی رہنماؤں میں بھی خوف پایا جاتا ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنما اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن سردار حسین بابک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان  کو اس گروہ کے سربراہ عزیز الرحمان کی جانب سے ایک دھمکی آمیز خط ملا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر انہیں اپنی جان عزیز ہے تو وہ ’کافرانہ نظام‘ کی حمایت کرنا چھوڑ دیں۔

سردار حسین بابک نے بتایا: ’یہ بہت حیرانی کی بات ہے کہ تین مہینے سے یہ لوگ وہاں موجود ہیں اور لوگوں میں خوف و ہراس ہے لیکن حکومت کی طرف سے ابھی تک ایک بیان بھی سامنے نہیں آیا ہے۔‘

 انہوں نے بتایا کہ حکومت کو اس بارے میں علم بھی ہے کہ ان کو دھمکی آمیز پیغامات موصول ہوئے ہیں لیکن ان کے ساتھ بھی حکومت کی جناب سے کسی قسم کا رابطہ نہیں کیا گیا ہے۔

ایلم پہاڑ  کی تاریخی اہمیت

قدرتی جنگلات اور درختوں کی وجہ سے ماضی میں بھی یہ پہاڑ طالبان کی لیے محفوظ پناہ گاہ تھی جہاں سے وہ وقتاً فوقتاً نیچے گاؤں میں اتر جاتے تھے۔

2009 کے دوران بھی بونیر میں زیادہ تر طالبان اسی پہاڑ پر چھپے ہوئے تھے۔

یہ پہاڑ ایک طرف سے سوات کو بونیر سے ملاتا ہے اور اس کی تاریخی اہمیت بھی ہے۔

ایلم پہاڑ میں وادی سندھ تہذیب کے آثار بھی ملے ہیں اور 1947 تک یہ ہندو مذہب کے پیروکاروں کے لیے مقدس جگہ تھی جہاں وہ عبادت کے لیے آتے تھے۔ اس پہاڑ پر سیاحوں کے لیے ہائکنگ ٹریکس بھی موجود ہیں جہاں سوات سمیت مختلف علاقوں سے سیاح آ کر ان راستوں کے ذریعے چوٹی تک جاتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان