وفاق کراچی کا کنٹرول نہیں لے سکتا: سندھ

پاکستان کے آئین کے مطابق وفاق کی حدود آئین کے آرٹیکل 97 میں واضح کی گئی ہیں۔ وفاق ہدایات دے سکتا ہے لیکن اس پر عملدرآمد کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے کہ کس طرح شہر کے بہترین مفاد میں کام کرنا ہے، ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب

سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کی تجویز پر کراچی کے مسائل کے حل کے لیے شہر کو آئین کے آرٹیکل 149 کے تحت وفاق کے سپرد کرنے کے امکان کو یکسر مسترد کردیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں ترجمان سندھ حکومت بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا: ’میں سمجھتا ہوں کہ یہ قطعی طور پر کراچی کے مسائل کا حل نہیں ہے، کراچی کو جو مسائل درپیش ہیں، اس میں اصل مسئلہ نیت کا ہے۔ مجھے ان مسائل کے حل کے لیے وفاقی حکومت کی نیت ہی نظر نہیں آتی بلکہ جن لوگوں کے پاس کراچی کا مینڈیٹ رہا ہے ان کی بھی نیت نظر نہیں آتی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب مرتضیٰ وہاب سے سوال کیا گیا کہ کیا وفاقی حکومت آرٹیکل 149 کے تحت کراچی کا انتظامی کنٹرول اپنے قبضے میں لے سکتی ہے؟ تو انہوں نے اس امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کے آئین کے مطابق وفاق کی حدود آئین کے آرٹیکل 97 میں واضح کی گئی ہیں۔ باقی سب کچھ صوبوں کے اختیارات ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا: ’وفاق ہدایات دے سکتا ہے لیکن اس پر عملدرآمد کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے کہ کس طرح شہر کے بہترین مفاد میں کام کرنا ہے، یہ فیصلہ آخر میں سندھ حکومت کو کرنا ہے۔‘

مرتضیٰ وہاب نے کہا: ’آرٹیکل 149 میں کہیں بھی یہ دکھا دیں کہ ایگزیکٹو اختیار وفاق کے پاس ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ کراچی کے لیے 162 ارب روپے مختص کروادیں اور وزیراعظم ہمیں ہدایات دیں کہ اس کو فلاں اسکیم میں لگائیں تو ہم اسے کرکے دکھائیں گے، اگر آپ نے 162 ارب روپے دینے کا اعلان کیا تھا تو اس پر یوٹرن نہ لیں۔‘

بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا مکمل انٹرویو دیکھیے:

آرٹیکل 149 کی تجویز

وزیراعظم عمران خان نے اتوار کے روز صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے دیرینہ مسائل حل کرنے کے لیے  وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی سربراہی میں ایک اسٹریٹیجک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی کو کراچی کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے سفارشات اور لائحہ عمل تیار کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔

اس حوالے سے وفاقی وزیرِ قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’کراچی کے مسائل کا حل آئین کے آرٹیکل 149 کا اطلاق ہے، جس کے تحت وفاقی حکومت کراچی کے لیے احکامات جاری کرسکتی ہے۔‘

تاہم سندھ حکومت نے اس تجویز کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا  کہ یہ سندھ کو تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔

آرٹیکل 149 ہے کیا؟

آئین پاکستان کے آرٹیکل 149میں وفاق اور صوبوں کے مابین تعلقات کے طریقہ کار کو بیان کیا گیا ہے اور بعض صورتوں میں صوبوں کے لیے ہدایات دی گئی ہیں۔

آرٹیکل 149 کی پہلی شق میں کہا گیا ہے کہ:
’ہر صوبے کی ایگزیکٹو اتھارٹی اس طرح استعمال کی جائے گی کہ وہ وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹی کے استعمال میں رکاوٹ پیدا نہیں کرے گی یا اسے کوئی نقصان نہیں  پہنچائے گی اور وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹی کسی صوبے کو ایسی ہدایات دینے کی مجاز ہوگی جو کسی مقصد کے لیے وفاقی حکومت کو ضروری معلوم ہو۔‘

 اس آرٹیکل کی دوسری شق خارج کردی گئی ہے، جبکہ تیسری شق میں کہا گیا ہے کہ:

’وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹی کسی صوبے کو ایسے ذرائع مواصلات کی تعمیر اور نگہداشت کے لیے ہدایت دینے کی بھی مجاز ہوگی جنہیں قومی یا فوجی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا ہو۔‘

آئین کی چوتھی شق جس کے نفاذ کی تجویز وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم نے دی ہے اس کے مطابق:

’وفاق کی ایگزیکٹو کمیٹی کسی صوبے کو ایسے طریقے کی بابت ہدایت دینے کی مجاز ہوگی، جس میں اس کی ایگزیکٹو کمیٹی کا پاکستان یا اس کے کسی حصے کو امن و سکون یا اقتصادی زندگی کے لیے کسی سنگین خطرے کے انسداد کی غرض سے استعمال کیا جانا ہو۔‘

سندھ میں برسرِ اقتدار جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے شدید احتجاج کرتے ہوئے اس کمیٹی اور وفاقی وزیر فروغ نسیم کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے اور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ یہ سندھ کو تقسیم کرنے کا منصوبہ ہے۔

صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی کے مطابق یہ کمیٹی وفاق میں برسرِ اقتدار حکومتی اتحادی جماعتوں اور سندھ اسمبلی کی اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل ہے اور کوئی بھی آئینی اور قانونی صوبائی حکومت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ ایسی کمیٹی کو انتظامی اختیارات دے کر صوبائی حکومت کے متوازی کوئی نظام چلایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ قانون اور آئین کے مطابق اس سلسلے میں بہت سارے کام صوبائی حکومت کی رضامندی کے بغیر نہیں ہو سکتے کیونکہ سندھ کے عوام نے پیپلز پارٹی کو مینڈیٹ دے رکھا ہے۔

کیا آرٹیکل 149 کا اطلاق کراچی میں ہو سکتا ہے؟

انڈپینڈنٹ اردو نے ماہرِ قانون اور سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ ضمیر گھمرو سے یہ جاننے کی کوشش کہ کیا آرٹیکل 149 کا اطلاق کراچی میں ہو سکتا ہے اور کیا اس کا نفاذ واقعی سندھ کو تقسیم کردے گا؟

اس حوالے سے ضمیر گھمرو کا کہنا تھا کہ ’یہ آرٹیکل وفاق کی فیڈرل اتھارٹی یعنی عملداری کے بارے میں ہے جو صرف وفاقی معاملات تک ہی محدود ہے۔ مثال کے طور پرسڑکوں کی ناکہ بندی کی وجہ سے بندرگاہ کی کارروائیوں یا جہاز رانی پر اثر پڑتا ہے، تب وفاق صوبے کو اس طرح کی ناکہ بندی ہٹانے کی ہدایت کرسکتا ہے۔ اس کا صوبے کی انتظامی طاقت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس آئین کا نفاذ کراچی میں ممکن نہیں ہے کیوں کہ اس آرٹیکل کا یہ اسکوپ نہیں۔ اس آرٹیکل کے تحت وفاقی حکومت صرف ان ہی معاملات میں صوبائی حکومت کو ہدایات دے سکتی ہے جو وفاقی حکومت کے سبجیکٹس ہیں یا اس کی عاملانہ وسعت میں ہیں۔ جس کے حوالے سے واضح طور پر آئین کے آرٹیکل 97 میں ہدایات موجود ہیں۔‘

آئین کے آرٹیکل 97 کے مطابق وفاق کا عاملانہ اختیار ان امور پر حاوی ہوگا جن کے بارے میں مجلس شوریٰ کو قوانین وضع کرنے کا اختیار ہے، جس میں پاکستان میں اور اس سے باہر کے علاقہ جات کے متعلق حقوق، اقتدار اور دائرہ اختیار کو بروئے کار لانا شامل ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ مذکورہ اقتدار کسی صوبے میں کسی ایسے امر پر حاوی نہیں ہوگا جس کے بارے میں صوبائی اسمبلی کو بھی قوانین وضع کرنے کا اختیار ہو۔ 

ضمیر گھمرو کے مطابق: ’جہاں تک کراچی کا سوال ہے، کراچی صوبائی حکومت کے تحت چل رہا ہے جس میں وفاقی حکومت عمل دخل نہیں کرسکتی۔ اس آرٹیکل کے نفاذ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وفاق صوبائی حکومت کے تحت چلنے والے معاملات پر قابو کرلے گی۔ اس لیے یہ تاثر بھی غلط ہے کہ اس آرٹیکل کا نفاذ سندھ کو تقسیم کردے گا۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیرِ قانون سے یہ پوچھا جائے کہ آخر کس قانون کے تحت یہ کمیٹی بنائی گئی ہے؟ کیوں کہ جو وفاق کے معاملات ہیں وہ صوبے کے نہیں ہیں اور جو صوبے کے معاملات ہیں وہ وفاق کے نہیں ہیں۔

شہرِ قائد کے مسائل کے حل کے لیے وزیر اعظم کی ہدایت پر قائم کی گئی اسٹریٹیجک کمیٹی 12 ارکان پر مشتمل ہے، جس میں چھ ممبران ایم کیو ایم اور چھ پی ٹی آئی کے ہیں۔ حکومت کی یہ اعلیٰ سطح کی کمیٹی کراچی میں انتظامی مسائل کے حل کے لیے سفارشات مرتب کرے گی اور اپنی تجاویز ہفتے کو وزیراعظم عمران خان کے سامنے رکھے گی۔

تین روز قبل وفاقی وزیر فروغ نسیم کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس میں وفاق کے تحت کراچی میں جاری ترقیاتی منصوبوں، فراہمی اور نکاسیٔ آب، ماس ٹرانزٹ اور دیگر منصوبوں پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا گیا۔

اس اجلاس میں وفاقی وزرا خسرو بختیار، خالد مقبول صدیقی، علی زیدی، امین الحق، فیصل واوڈا، رکن قومی اسمبلی آفتاب حسین صدیقی، ارکان سندھ اسمبلی فردوس شمیم نقوی اور حلیم عادل شیخ شامل تھے۔

دوسری جانب گزشتہ روز میئر کراچی وسیم اختر نے اپنی ہی پارٹی کے بیرسٹر فروغ نسیم کی سربراہی میں بنائی گئی اعلیٰ سطح کی کمیٹی پر تحفظات کا اظہار کر دیا۔

وسیم اختر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’کراچی کو کمیٹیوں کی نہیں فوری وسائل کی ضرورت ہے، ہر شخص مشورے دیتا ہے فنڈز کوئی نہیں دیتا۔‘

شہرِ قائد میں کچرے اور دیگر مسائل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’کراچی آئی سی یو میں پڑا ہے، کمیٹی بننے سے فوری حل نہیں نکل سکتے، مشورے اور تجاویز بہت دے چکے، کچرا اٹھانا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، پیسے یا مشینری دیں پھر دیکھیں کچرا کیسے اٹھتا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست