شیم آن باڈی شیمنگ

باڈی شیمنگ کوئی نئی چیز نہیں، یہ طویل عرصے سے چلی آ رہی ہے۔ ’گورے رنگ کا زمانہ کبھی ہو گا نہ پرانا‘ جیسے گانوں کی دلدادہ ہماری قوم تو ویسے ہی چہرے کی رنگت پر مرمٹتی ہے۔

زارا نور  عباس نے’ شیم آن باڈی شیمنگ‘ کا نعرہ لگایا (تصویر: زارا نور عباس انسٹاگرام اکاؤنٹ)

’میں کافی عرصے سے لوگوں کے منہ سے سنتی آرہی ہوں کہ میں کافی لمبی چوڑی ہوں۔ مجھے باڈی ٹرانسفارمنگ (جسم کی ہیئت تبدیل کرنے والی) سرجری کروانے کے مشورے دیے جاتے ہیں۔ ایک بہت مشہور برانڈ نے صرف اس وجہ سے میرے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ انہیں بالکل دبلی پتلی ماڈل چاہیے تھی۔‘

یہ کہنا تھا زارا نور عباس کا، جن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ہم ٹی وی کے ڈراما سیریل ’خاموشی‘ سے شہرت حاصل کرنے والی زارا بڑی سکرین پر بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہیں لیکن بہت سی کامیابیاں سمیٹنے کے باوجود زارا بھی معاشرے کے اُن تلخ رویوں کا شکار نظر آتی ہیں، جو لوگوں کو اندر ہی اندر گھُن بن کر کھا جاتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل اپنی ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں زارا نے باڈی شیمنگ پر کھل کر بات کی۔ انہوں نے بتایا کس طرح لوگ ان کی جسمانی ساخت کی وجہ سے انہیں مختلف قسم کے ’مشورے‘ دیتے ہیں یا کس طرح کام کے دوران انہیں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

’کچھ عرصہ قبل میں نے ایک فوٹو شوٹ کروایا، جب مجھے اس کی تصاویر بھجوائی گئیں تو میں نے دیکھا ایک تصویر میں میرے جسم کو فوٹو شاپ کے ذریعے دبلا اور سمارٹ دکھایا گیا تھا، جبکہ دوسری تصویر اصل تھی، جس میں، میں موٹی نظر آرہی تھی۔‘

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Left : Photoshoped Right : Original A shoot i did sometime ago. The people involved sent me this picture and i made a collage of it. For the longest time I have heard people telling me that I am ' too broad ' or ' too big ' I was told: Sizes 4 and 6 SHOULD be my friends! I should go through body transforming surgery. A very prestigious brand didn't want to work with me because I was not ' petite ' This disturbed me a lot on different levels but one level so loathing that I stopped liking myself wearing anything. I began to question if it was all about how I looked and not about who I am at heart or if i am talented or not. If I'd have carbs at dinner, I'd cry. If i'd have some chips to eat, people would tell to get rid of them because actresses and models dont eat. They have to look desirable. And ONLY skinny is desriable. If I had desserts, I'd hate myself later on and create an energy so negative that it effected me mentally. Then one fine day, while this was taking a huge toll on me, I looked at myself and told myself what I always believed in. Being who you are. And who am I? I am a curvy woman. And I love myself. Take me as who I am or else don’t bother at all. I will never change myself for what you think I should be. #ShameonBodyShaming

A post shared by Zara Noor Abbas Siddiqui (@zaranoorabbas.official) on

زارا کے مطابق یہ سب کچھ ان کے لیے بہت پریشان کن تھا۔ اتنا کہ انہیں اپنا آپ ہی برا لگنے لگا اور وہ خود سے سوال کرنے پر مجبور ہو گئیں کہ کیا صرف ’لُکس‘ اور ظاہری ہیئت ہی اہم ہے؟ وہ کھانا کھاتی تھیں لیکن پھر انہیں یہ پریشانی لاحق ہوجاتی کہ وہ موٹی ہو جائیں گی کیونکہ شوبز کی دنیا کا اصول ہے کہ اداکاراؤں اور ماڈلز کو موٹا نہیں بلکہ دبلا پتلا اور سمارٹ ہونا چاہیے۔

تبدیلی کیسے آئی؟

زارا کے مطابق ’ایک دن یہ سب میری برداشت سے باہر ہو گیا۔ میں نے خود کو دیکھا اور اپنے آپ کو بتایا مجھے خود پر یقین ہے اور اس پر بھی کہ میں کیا ہوں؟ میرے جسم میں ابھار ہیں اور مجھے اپنے آپ سے محبت ہے۔ لوگوں کو مجھے اسی طرح سے برداشت کرنا ہو گا، دوسری صورت میں مجھے کوئی پروا نہیں، میں خود کو کبھی بھی دوسروں کی سوچ کے مطابق تبدیل نہیں کروں گی۔‘

یہ تو تھی ’شیم آن باڈی شیمنگ‘ کا نعرہ لگانے والی زارا نور عباس کی کہانی —  ملک کی ایک مایہ ناز اداکارہ، جنہیں معاشرے کی دیگر خواتین کی نسبت بہت سی سہولیات میسر ہیں، جو اپنی بات لاکھوں لوگوں تک پہنچا سکتی ہیں اور جو اپنے حق کے لیے زیادہ بہتر طریقے سے لڑ سکتی ہیں، لیکن ہمارے معاشرے میں بے شمار لڑکیاں، خواتین حتیٰ کہ مرد بھی ایسے ہوں گے، جنہیں باڈی شیمنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جنہیں ان کی جسمانی ساخت اور ہیئت کی وجہ سے مذاق اور تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

باڈی شیمنگ ہے کیا؟

جب کسی بھی انسان کو اس کے جسم کی ہیئت یا سائز کی وجہ سے مذاق یا تنقید کا نشانہ بنایا جائے تو اسے باڈی شیمنگ کہتے ہیں۔  

یہ چیز ہمارے معاشرے میں بہت عام ہے۔ کہیں کسی کو ناک موٹا ہونے کے طعنے دیے جاتے ہیں، کہیں دبلا پتلا ہونے پر طنز کے تیر چلائے جاتے ہیں تو کہیں ’اوئے موٹے‘ کہہ کر شرمندہ کیا جاتا ہے۔

بہت سے لوگوں کے نزدیک کسی کی جسمانی ہیئت یا شکل و صورت کا مذاق اڑانا بہت عام سی بات ہو گی، لیکن اس کا نشانہ بننے والے کے لیے یہ سب بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اور یہی چیز بہت سے نفسیاتی مسائل کا سبب بنتی ہے۔  

اسلام آباد کی ایک این جی او ’روزن‘ سے وابستہ سینیئر نفسیات دان روحی کے مطابق ان کے پاس باڈی شیمنگ سے متعلق براہ راست کیس تو نہیں آتے لیکن جب لوگوں سے تفصیلی بات کی جاتی ہے تو اکثر کیسوں میں مسائل کی لاشعوری وجہ باڈی شیمنگ بھی ہوتی ہے۔

روحی کے مطابق ہمارے یہاں بچپن سے ہی لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ ان کا رنگ کالا ہے، قد چھوٹا ہے یا وہ بہت کمزور یا موٹے ہیں۔ یہ چیز انسان کے لاشعور میں بیٹھ جاتی ہے اور زندگی کے ہر مرحلے پر انہیں پریشان کرتی ہے۔

روحی اسے ’چائلڈہڈ میسجز‘ کا نام دیتی ہیں یعنی وہ چیزیں یا پیغامات جو بچپن سے ہی انسان کے ذہن میں نقش ہوجاتی ہیں اور کسی نہ کسی طرح اسے پوری زندگی پریشان کرتی رہتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا چائلڈہڈ میسجز والدین، بہن بھائیوں، ٹیچرز یا دوستوں کی جانب سے دیے جاتے ہیں۔ مثلاً کسی لڑکی کو کہا جاتا ہے تمہارا رنگ کالا ہے جبکہ تمہاری بہن تمہارے مقابلے میں زیادہ خوبصورت ہے، یہ باتیں لڑکوں کو بھی کہی جاتی ہیں مگر ان کی شرح نسبتاً کم ہوتی ہے۔ یہ باتیں ہمارے لیے ’شیم‘ یعنی باعثِ شرم بن جاتی ہیں۔

انہوں نے بتایا ہمارے معاشرے میں اس چیز کی آگاہی نہیں کہ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہماری نفسیاتی صحت پر کس طرح سے اثر انداز ہوتی ہیں۔ اگر کسی کا رنگ کالا یا قد چھوٹا ہے تو یہ اس کی غلطی نہیں، یہ فطری چیزیں ہیں جو جینیات کی وجہ سے انسان کو اپنے والدین سے ملتی ہیں اور وہ اسے تبدیل نہیں کر سکتا۔

روحی کے مطابق ہم لوگوں کو ان کی خوبیوں اور اچھائیوں کے بجائے ظاہری شکل و صورت کے پیمانے پر ناپنے کے عادی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں لوگوں کو ان کی جمسانی ہیئت، ساخت یا رنگ و روپ کی بنا پر اس طرح سے ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ اس کی عزت نفس کمزور پڑ جاتی ہے اور وہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اپنی این جی او کے تحت وہ ذاتی طور پر، ٹیلیفون یا ای میل کے ذریعے لوگوں کی کونسلنگ کرتی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ایک ماہ میں لی جانے والی 40 سے 50 ٹیلیفونک کالز میں سے 10 سے 20 لوگوں کے نفسیاتی مسائل کے پیچھے ’باڈی شیمنگ‘ ایک جزو کے طور پر سامنے آتی ہے۔

روحی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ باڈی شیمنگ کا مسئلہ صرف بچوں یا نوجوان لڑکے لڑکیوں میں نہیں، بلکہ بڑے عہدوں پر کام کرنے والے افراد بھی بعض اوقات اپنے آپ سے، اپنی جسمانی ساخت سے مطمئن نہیں ہوتے اور اس سلسلے میں ہم سے رابطہ کرتے ہیں۔

حل کیا ہے؟

کسی خاص مسئلے کے حوالے سے معاشرتی رویے تبدیل کرنے کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ اس پر بات کی جائے اور اس حوالے سے آگہی پیدا کی جائے۔

پاکستانی معاشرے میں باڈی شیمنگ کا مسئلہ بہت سے لوگوں کو درپیش ہے لیکن لوگ اس پر کھُل کر بات نہیں کرتے۔ تاہم گذشتہ برس مشہور کُکنگ آئل برانڈ ڈالڈا نے ’میری آواز‘ کے نام سے ایک مہم شروع کی۔ اس مہم میں معروف ماڈل و اداکارہ آمنہ شیخ فرنٹ پر تھیں جبکہ ان کے ساتھ ثروت گیلانی، نادیہ حسین، ثمینہ پیرزادہ، منشا پاشا اور کبریٰ خان سمیت دیگر اہم شخصیات بھی آواز سے آواز ملاتی نظر آئیں۔

’میری آواز‘ کا بنیادی مقصد باڈی شیمنگ پر بات کرکے اس کی حوصلہ شکنی کرنی تھی کہ کس طرح بچوں باالخصوص لڑکیوں کو بچپن سے ہی ان کی جسمانی ساخت، قد یا شکل و صورت پر تنقید کرکے یا مذاق اڑا کر پریشان کیا جاتا ہے۔

ماؤں کو یہ کہا جاتا ہے کہ بچیوں کو زیادہ مت کھلاؤ ورنہ وہ موٹی ہو جائیں گی، یا پھر بچیوں کو خود بھی موٹی یا پتلی کہہ کر احساسِ کمتری میں مبتلا کیا جاتا ہے۔

اس مہم کو الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بھی پذیرائی ملی اور خواتین اور انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم بہت سی تنظیمیں اس میں شامل ہو گئیں۔

اس حوالے سے جب اداکارہ ثروت گیلانی سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا اس مہم کا مقصد آگہی پیدا کرنا تھا کہ خواتین یا لڑکیوں کو اپنے لیے بولنا چاہیے۔ اگر کوئی انہیں کسی بات پر ٹوک رہا ہے یا مشورے دے رہا ہے، تو انہیں خاموشی سے سن کر چپ نہیں ہوجانا چاہیے بلکہ اپنا موقف بیان کرنا چاہیے اور اس معاملے پر کھُل کر بات کرنی چاہیے۔

ثروت کے مطابق ہمارے معاشرے میں خواتین کو شادی بیاہ، بچوں کی پیدائش یا اسی طرح کے دیگر معاملات میں بہت سی باتیں سننا پڑتی ہیں اور ’میری آواز‘ کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ ان رویوں کو ختم کیا جائے۔

باڈی شیمنگ کوئی نئی چیز نہیں، یہ طویل عرصے سے چلی آ رہی ہے۔ ’سانولی سلونی سی محبوبہ‘ اور ’گورے رنگ کا زمانہ کبھی ہو گا نہ پرانا‘ جیسے گانوں کی دلدادہ ہماری قوم تو ویسے ہی چہرے کی رنگت پر مرمٹتی ہے۔

حتیٰ کہ محمد رفیع کی آواز میں ایک نغمہ گونجتا ہے تو اس میں بھی اگر مگر سے کام لے کر رنگت پر سوالیہ نشان قائم کیا جاتا ہے:

کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت
’مگر‘ سانولی سی

ایسے میں کم صورت یا گہری رنگت کی خواتین اور مردوں کو بھی تضحیک یا بالواسطہ تنقید کا نشانہ بنانا ایک عام سی بات ہے۔ لیکن مسئلہ پھر وہیں ہے آخر باڈی شیمنگ کو ختم کیسے کیا جائے؟

اس کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ ایک ایک قطرہ اگر مسلسل کسی پتھر پر گرتا رہے تو اُس میں بھی سوراخ ہو سکتا ہے، یہ تو پھر انسانی رویے ہیں، جنہیں تبدیل ہونے میں وقت ضرور لگے گا، لیکن یہ کام ناممکن ہرگز نہیں۔

اس کا آغاز ہم سب کو انفرادی طور پر اپنے آپ سے، اپنے اردگرد سے کرنا ہو گا۔ بہرحال آغاز ہی بعض اوقات ایک بہت بڑی کامیابی ہوتا ہے کیونکہ ہم اپنی ذات سے اگر کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے تو کم از کم اپنے الفاظ سے انہیں تکلیف پہنچانے کا بھی ہمیں کوئی حق نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل