’اب تو میں انگریزی میں بھی عام بول چال کر لیتی ہوں‘

ایک درجن کے قریب خواجہ سرا اسلام آباد کی نواحی کچی بستی میں ایک گھر کے تنگ و تاریک کمرے میں دینی اور دنیاوی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

ہم گانا نہ گائیں، بھیک نہ مانگیں تو کیا کریں؟ پیٹ کیسے پالیں گے، ہمیں تو کوئی نوکری نہیں دیتا،ہمیں تو خیرات دیتے ہوئے بھی لوگ جھجھکتے ہیں، ہم سے نفرت کی جاتی ہے، یہ کہنا تھا اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ریما نامی خواجہ سرا کا۔

ریما ان درجن بھر خواجہ سراؤں میں سے ایک ہے جو وفاقی دارالحکومت کی نواحی کچی بستی میں ایک گھر کے تنگ و تاریک کمرے میں تربیت حاصل کررہی ہیں۔

فیض عام ویلفیئر ٹرسٹ کے تحت قائم اس تربیت گاہ کا مقصد خواجہ سراؤں کی استطاعت میں اضافہ کرنا ہے۔

یہاں ان کو مختلف قسم کے ہنر اور دوسری چیزیں سکھائی جاتی ہیں، جن میں سلائی کڑھائی، کمپیوٹر کا استعمال، انگریزی زبان میں بول چال اور دینی تعلیمات خصوصا ًعبادات شامل ہیں۔

ریما بتاتی ہیں یہاں سے حاصل ہونے والی تربیت سے انہیں ذاتی طور پر بہت فائدہ حاصل ہوا۔’میں نے یہاں سے گفتگو کرنے کا سلیقہ سیکھا، اب تو میں انگریزی میں بھی عام بول چال کر لیتی ہوں۔‘

 ٹرسٹ کے مرکز سے کپڑوں کی سلائی سیکھنے والی بجلی نامی خواجہ سرا نے کہا ’ہمیں مسائل تو بہت ہوتے ہیں، لیکن کام سیکھ کر کم از کم میں اس قابل ہو گئی ہوں کہ اپنے لیے باعزت طریقے سے روزی روٹی کما رہی ہوں۔‘

تاہم بجلی معاشرے سے نالاں نظر آئیں۔ ان کا کہنا تھا’ہنرمند ہونے کے باوجود یہ معاشرہ ہمیں قبول کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے۔‘

سال 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد10 ہزار سے کچھ زیادہ ہے۔

خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے اعداد شمار کے مطابق پاکستان میں تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی آبادی کم از کم تین اور زیادہ سے زیادہ پانچ لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔

خواجہ سراؤں کی آبادی کم ظاہر ہونے کی وجہ مردم شماری میں صرف ان خواجہ سراؤں کی گنتی کرنا تھی جن کے شناختی کارڈ پر جنس کے خانے میں خواجہ سرا درج تھا جبکہ جن کے شناختی کارڈز میں جنس کا خانہ خالی یا اس میں مرد یا عورت لکھا تھا انہیں خواجہ سرا کے طور پر شمار نہیں کیا گیا۔

تاہم گذشتہ سال پاکستانی پارلیمان نے خواجہ سراؤں کے بحیثیت شہری حقوق کوتحفظ فراہم،ان کا کسی بھی شکل میں استحصال ختم اور ان کے لیے دوسرے پاکستانی شہریوں کے برابر روزگار کے مواقع دستیاب کرنے کے لیے ایک تاریخی قانون منظور کیا۔

ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ کی منظوری کے بعد خواجہ سرا قومی شناختی کارڈ سمیت دوسری تمام دستاویزات میں اپنی جنس واضح طور پر درج کر سکتے ہیں۔

فیض عام ویلفیئر ٹرسٹ کی ڈائریکٹر عائشہ اقبال کا کہنا تھا اس تربیت گاہ کا مقصد ان لوگوں کو معاشرے میں رہنے کی تربیت دینا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا ان کا ادارہ خواجہ سراؤں کو نہ صرف ہنر سکھاتا ہے بلکہ انہیں مذہبی تعلیمات بھی دی جاتی ہیں۔

تربیت حاصل کرنے والی ایک اور خواجہ سرا شگفتہ کا کہنا تھا ’مجھے لگتا ہے معاشرے میں آہستہ آہستہ بدلاو آرہا ہے، امید ہے لوگ ہمیں بھی عام انسان کی طرح تسلیم کرنا شروع کردیں گے‘۔

وہاں موجود خواجہ سراؤں کی گرو کا خیال تھا کہ ان لوگوں کے لیے اس قسم کی تربیت گاہیں بہت ضروری ہیں۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا’ اگر معاشرہ ہمیں قبول کرنا شروع کرتا ہے تو ہم میں اہلیت موجود ہونا چاہیے کہ ہم معاشرے کے اچھے شہری بن کر دکھائیں۔‘

خواجہ سراؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کی برادری سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے لیے تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جائے۔

خواجہ سرا کیا ہوتا ہے؟

اللہ تعالی نے جنس کے لحاظ سے انسانوں کو عمومی طور پر دوبڑے گروہوں میں بانٹا ہے، یعنی مرد اور عورت۔ تاہم دنیا میں ایک تیسری جنس بھی موجود ہے۔

تیسری جنس یا مرد اور عورت سے مختلف جنسی رجحانات رکھنے والے افراد میں ایک سے زیادہ اقسام پائی جاتی ہیں۔

جدید دنیامرد یا عورت سے مختلف جنس رکھنے والے افراد کو ایل جی بی ٹی کا نام دیتی ہے۔

ٹرانس جینڈرز یا خواجہ سراؤں سے مراد ایسے لوگ ہیں جن کا جنسی رویہ، رجحان اور شناخت معاشرے میں کسی مخصوص جنس سے وابستہ افراد سے مختلف ہوتے ہیں۔

یعنی ایک شخص جسمانی طور پر دیکھنے میں تو مرد نظر آئے لیکن اس کی سوچ، طور طریقے، رہن سہن اور عادات خواتین جیسی ہو،تو ایسے شخص کو خواجہ سرا یا ٹرانس جینڈر کہا جائے گا۔

پاکستان اور بھارت میں ٹرانس جینڈرز کو ہجڑا بھی کہا جاتا ہے، جو ایک توہین آمیز نام ہے۔اس نام کے استعمال کی ٹرانس جینڈرز اور ان کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ویڈیو