’ایسے تشدد سے بہتر ہے گولی لگے اور مر جاؤں‘

26 سالہ کشمیری عابد خان کے مطابق بھارتی فوج کی قید سے رہائی ملنے کے بعد صبح کا وقت تھا اور وہ کھڑے نہیں ہو سکتے تھے۔ انہیں 10 روز تک الٹیاں آتی رہیں۔ وہ تقریباً 20 دن بعد دوبارہ چلنے پھرنے کے قابل ہوئے۔

بھارتی فوجیوں کے تشدد کا نشانہ بننے والے 26 سالہ عابد خان ضلع شوپیاں کے گاؤں ہیرپورہ کے رہنے والے ہیں (اے ایف پی)

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ایک حصے ہیرپورہ میں بھارتی فوج کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والے 24 کے قریب نوجوانوں میں سے ایک نے خود پر کیے گئے تشدد کا حال بتایا۔ عابد خان کے مطابق بھارتی فوجی آدھی رات کے بعد ان کے پاس آئے۔ انہیں ان کے بھائی کے ساتھ گھسیٹ کر گھر سے باہر نکالا گیا اور آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی۔ جس کے بعد ان کے بھائی کو بجلی کے جھٹکے دیئے گئے۔

یہ بتاتے ہوئے عابد کے ہاتھ لرز رہے تھے۔ 26 سالہ عابد خان ضلع شوپیاں کے گاؤں ہیرپورہ کے رہنے والے ہیں۔

ہیرپورہ کے مکین کہتے ہیں کہ بھارتی فوجیوں کی مبینہ بدسلوکی کا مقصد خوف کی فضا پیدا کرنا ہے۔ خون میں ڈوبے اور طویل عرصے سے بدامنی کے شکار اس خطے کو پانچ اگست کے دن اس کی خود مختار حیثیت سے محروم کر دیا گیا تھا۔

عابد خان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’انہوں نے میرے بھائی کو وہیں سڑک کی ایک طرف بجلی کے جھٹکے دیئے۔ مجھے بھائی کی درد میں ڈوبی چیخیں سنائی دیں۔‘ انہوں نے اپنے بھائی کے بازوؤں، ٹانگوں اور کمر کے نچلے حصے پر پڑے نشانات بھی دکھائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عابد خان نے بتایا کہ ایک بار چوگام کے قریبی فوجی کیمپ میں فوجیوں نے انہیں برہنہ کر دیا۔ ان کی ٹانگیں اور کلائیاں باندھ دی گئیں اور انہیں لٹکانے کے بعد لوہے کے ڈنڈوں سے مارا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کیمپ کے میجر نے ان پر الزام لگایا کہ انہوں نے حزب المجاہدین کے ریاض نیکو کو حال ہی میں ہونے والی اپنی شادی کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی۔ حزب المجاہدین اُن متعدد عسکریت پسند گروپوں میں سے ایک ہے جو بھارتی حکمرانوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

بھارت کا موقف ہے کہ اس کے زیر انتظام کشمیر میں جاری تحریک کو پاکستان کی مدد حاصل ہے۔ 1947 سے کشمیر کا ایک حصہ پاکستان کے زیر انتظام چلا آ رہا ہے۔ 1989 سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جاری تحریک کے دوران ہزاروں کشمیری مارے جا چکے ہیں جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

عابد خان نے بتایا: ’میں بار بار کہتا رہا کہ یہ درست نہیں ہے۔ اس کے بعد انہوں نے میرے نازک حصوں اور زخموں پر بجلی کے جھٹکے لگائے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں تمہیں نامرد بنا دوں گا۔‘

عابد خان کہتے ہیں کہ بھارتی فوج کی قید سے رہائی ملنے کے دن وہ صبح کا وقت تھا اور وہ کھڑے نہیں ہو سکتے تھے۔ انہیں 10 روز تک الٹیاں آتی رہیں۔ وہ تقریباً 20 دن بعد دوبارہ چلنے پھرنے کے قابل ہوئے۔

ان کا کہنا تھا: ’میں ٹھیک طریقے سے کھانے پینے کے قابل نہیں رہا۔ میں اُس کمرے میں نہیں جاتا جہاں میری بیوی سوتی ہے۔ اس قسم کے تشدد کا نشانہ بننے سے بہتر ہے کہ گولی لگے اور بندہ مر جائے۔‘

بھارتی حکومت کا موقف ہے کہ کشمیر کے زیادہ تر حصوں میں موبائل فون سروس اور انٹرنیٹ کی بندش کا مقصد ’دہشت گردوں‘ کو پاکستان کی مدد سے حالات خراب کرنے سے روکنا ہے۔ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر نے بھارتی فوج کی جانب سے مظالم کی تردید کی ہے۔ مشیر کے اس بیان کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں فوجی ترجمان کرنل راجیش کالیا نے دہرایا۔

کرنل راجیش کالیا نے اے ایف پی کو بتایا: ’دہشت گردی کے خلاف تمام کارروائیاں انتہائی پیشہ ورانہ اور انسان دوست انداز میں کی جاتی ہیں۔ فوج پر بدسلوکی کے الزامات مکمل طور بے بنیاد ہیں۔‘

لیکن ہیرپورہ کے لوگ کہتے ہیں کہ وہ رات کے وقت اکثر قریبی فوجی کمیپ سے چیخیں سنتے ہیں۔

دوسرے تین دیہاتیوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ شوپیاں کے دیہات کے تقریباً دو درجن نوجوانوں نے بھی ایسی ہی کہانیاں سنائی ہیں۔

تشدد کا نشانہ بننے والوں کی فہرست تیار کرنے والے شوپیاں کے ایک رہائشی نے کہا: ’بھارتی فوج ہر گاؤں سے دو یا تین نوجوانوں کو نشانِ عبرت بنا رہی ہے۔‘

بھارتی فوجیوں کا یہ طریقہ ہے کہ وہ گھروں پر چھاپے مار کر شناختی کارڈ اور موبائل فون لے جاتے ہیں اور نوجوانوں کو وہ اشیا واپس لینے کے لیے فوجی کیمپوں میں آنے کا کہا جاتا ہے۔

ایک 21 سالہ نوجوان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو اپنے زخموں کی تصاویر دیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ 27 اگست سے تین مرتبہ پاہنو کے فوجی کیمپ میں جا چکے ہیں۔ تینوں مرتبہ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک افسر نے ان پر باغیوں کو خوراک فراہم کرنے کا الزام لگایا اور مخبری کے بدلے رقم کی پیش کش کی۔ ایک بار ان کے ایک سابق ہم جماعت کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی جو اب عسکریت پسند ہے۔

نوجوان نے کہا: ’انہوں نے ایک تاریک کمرے کے اندر مجھے دو گھنٹے تک بجلی کے جھٹکے دیئے۔‘ اس موقع پر انہوں نے اپنے بازو پر زخموں کے نشانات بھی دکھائے۔

21 سالہ عبید خان کا تعلق گگلورا گاؤں سے ہے۔ انہیں شناختی کارڈ اور موبائل فون واپس لینے کے لیے 26 اگست کو اسی فوجی کیمپ میں جانا پڑا۔

انہوں نے فوجیوں سے لڑنے والے مظاہرین کے حوالے سے کہا: ’آٹھ فوجی مجھے دیر تک لوہے کی راڈ سے مارتے رہے۔ جانے کی اجازت دینے سے پہلے انہوں نے مجھ سے کہا کہ واپس آ کر گاؤں کے اُن لوگوں کے نام بتاؤں جنہوں نے فوجیوں پر پتھراؤ کیا تھا۔‘

پنجورا نامی گاؤں کے ایک مقامی سرکاری عہدیدارسجاد حیدر خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے 18 سو ایسے افراد کی ایک فہرست دیکھی ہے جنہیں فوج اور پولیس نے صرف شوپیاں سے حراست میں لیا۔ شوپیاں جنوبی وادی کشمیر کے چار اضلاع میں سے ایک ہے۔

سجاد حیدر خان نے بتایا کہ ان کے آبائی علاقے شوپیاں سے کچھ ہی دور کالے رنگ کے یونیفارم میں ملبوس پانچ فوجی آئے۔ ان کے یونیفارم پر ’کمانڈو‘ کے الفاظ درج تھے۔ انہوں نے رائفلیں اٹھا رکھی تھیں۔ انہوں نے گھر گھر جا کر مکینوں کے بارے میں معلومات لیں۔

انہوں نے مزید بتایا ’عاجزانہ اور دھیمے طور پر صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ لوگوں کو احتجاج سے روکنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ حربہ کارگر بھی ثابت ہوا ہے اور پانچ اگست کے بعد سے فوجیوں پر پتھراؤ نہیں کیا گیا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا