’صلاح الدین پر ہونے والا تشدد موت کی واحد وجہ نہیں‘

پولیس حراست میں ہلاک ہونے والے رحیم یار خان کے صلاح الدین کی فرانزک رپورٹ کے مطابق ان کی موت کے پیچھے تشدد اور پھیپھڑوں کی بیماری کے ساتھ ساتھ نیوروجینک شاک سمیت کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے۔

صلاح الدین  کو  مبینہ طور پر بینک کی اے ٹی ایم مشین سے پیسے نکالنے اور کیمرے کے سامنے زبان چڑانے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد مقامی پولیس نے حراست میں لیا تھا۔  (تصویر: سوشل میڈیا)

پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں مبینہ طور پر اے ٹی ایم سے پیسے نکالنے کے معاملے پر پولیس کی حراست میں ہلاک ہونے والے صلاح الدین کی فرانزک رپورٹ کے مطابق موت سے قبل ان پر تشدد ہوا لیکن اسے موت کی سو فیصد وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فرانزک رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ صلاح الدین کے جسم پر تین سے چار اور چار سے پانچ سینٹی میٹر کے تشدد کے نشانات پائے گئے۔

فرانزک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صلاح الدین کی موت سے قبل انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے دائیں بازو کے اوپر اور پیٹ کے بائیں حصے پر تشدد کیا گیا، جہاں خون کے لوتھڑے جمے ہوئے تھے۔

رپورٹ کے مطابق صلاح الدین کو پھیپھڑوں کی پرانی بیماری بھی تھی، جس میں سانس کا نہ آنا اور پھولنا شامل ہے۔ لہذا ان کی موت کے پیچھے تشدد اور پھیپھڑوں کی بیماری کے ساتھ ساتھ نیوروجینک شاک سمیت کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے۔

یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل صلاح الدین نامی شخص کو مبینہ طور پر بینک کی اے ٹی ایم مشین سے پیسے نکالنے اور کیمرے کے سامنے زبان چڑانے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد مقامی پولیس نے حراست میں لیا تھا۔ اس دوران ان کی موت واقع ہوگئی تھی۔

پولیس تفتیش کے دوران صلاح الدین پر تشدد کی تصاویر اور ویڈیوز بھی منظرِ عام پر آئیں، جن میں وہ پولیس اہلکاروں سے سوال کرتے نظر آئے تھے: ’اِک گَل پُچھاں، مارو گے تے نئیں۔ تُسی مارنا کتھوں سکھیا؟‘ (ایک بات پوچھوں مارو گے تو نہیں، آپ نے مارنا کہاں سے سیکھا؟)

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 پولیس حکام نے صلاح الدین کی موت کی وجہ دل کا دورہ پڑنا قرار دی تھی۔

اس معاملے پر جب میڈیا کوریج ہوئی تووزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) رحیم یار خان کو عہدے سے ہٹا دیا تھا جبکہ معاملے کی چھان بین کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کو بھی خط لکھا تھا۔ عدالت سے رابطہ کرنے کا فیصلہ صلاح الدین کیس میں نئے شواہد سامنے آنے پر کیا گیا تھا۔

صلاح الدین کے لواحقین کے مطابق وہ ذہنی معذور تھے اور اِدھر اُدھر گھومتے رہتے تھے، اسی لیے ان کے بازو پر گھر کا پتہ اور فون نمبر درج کیا گیا تھا۔

پولیس حکام کی جانب سے معاملے کو دبانے کی کوششیں جاری رہیں لیکن لواحقین کے مطالبے پر صلاح الدین کی لاش کے حصے مستند تحقیق کے لیے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی لاہور بھجوائے گئے۔ جن کی مکمل چھان بین کے بعد رپورٹ جاری کی گئی ہے۔

اس واقعے پر شہریوں نے سوشل میڈیا پر صلاح الدین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے مہم بھی چلائی اور  اے ٹی ایم مشینوں کے سامنے زبان نکال کر سیلفیاں بنا کر وائرل کیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان