ووٹ کے حق کی خواہاں وہ خواتین جنہوں نے اپنے آپ کو پارلیمان کے ساتھ زنجیروں سے جکڑ لیا، ان سے لے کر 70 کی دہائی کی وہ دھندلی تصاویر جن میں خواتین تولیدی حقوق اور دفاتر میں برابری کے لیے مارچ کرتی دکھائی دیتی ہیں، یہ سب 20 ویں صدی کی تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔
گلی کوچوں میں حقوق کے لیے نکلنا آزادی کی جنگ میں اہم سرگرمی تھی اور ہے لیکن سوشل میڈیا نے اب تبدیلی متعارف کروا دی ہے۔
آن لائن ایکٹوازم میں عالمی اضافہ یا ’نیٹ ورکڈ فیمنزم‘ اب جذباتی احتجاج ہے۔ فیس بک اور انسٹا گرام پر جنسیات کا جواب اب فوراً بٹن دبانے سے دیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ترانا برک جیسی خواتین نے پہلی مرتبہ ’می ٹو‘ مہم کا آغاز 2006 میں مائی سپیس میں کیا۔ ہاروی وائنسٹین کے خلاف جنسی الزامات سامنے آنے سے بھی بہت پہلے۔ اس کے بعد انہوں نے ڈیجیٹل دور کے وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔
اس کے علاوہ چائڈرا ایگر جیسے انفرادی لوگ بھی ہیں جن کا وائرل ہیش ٹیگ سیگی بوبز میٹر(#SaggyBoobsMatter) دنیا بھر میں جسم کے بارے میں مثبت سوچ کو فروغ دیتا ہے۔
خواتین کو درپیش روزمرہ جنسی ہراسانی سے لے کر اقلیتوں کی آواز کو اٹھانے تک سوشل میڈیا خواتین کے لیے ایک طاقتور آلہ بن چکا ہے، جس کے ذریعے وہ لامحدود معاشرتی مسائل سے نمٹتی ہیں۔
اوپر دی گئی تصاویر کی گیلری اُن خواتین پر مشتمل ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کو بہتر جگہ بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
© The Independent