سعودی، ایران ممکنہ تصادم: پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟

اگر خطے کی موجودہ صورت حال جنگی تنازعے میں بدل گئی تو پاکستان کے لیے بہترین راستہ یہی ہو گا کہ توازن برقرار رکھا جائے جیسا کہ سعودی - یمن تنازعے میں کیا گیا تھا۔

پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرا خارجہ کا اسلام آباد میں ایک گروپ فوٹو (اے ایف پی)

دورۂ سعودی عرب کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایک بار پھر الزام لگایا کہ 14 ستمبر کو آرامکو کی تیل تنصیبات پر حملوں کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے۔

اس دورے سے ایک دن پہلے سعودی حکومت نے اپنی تحقیقات کا نتیجہ ظاہر کرتے ہوئے ایران پر حملوں کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا۔ اگرچہ حملوں کے فوری بعد یمن کے حوثی باغیوں نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی تھی تاہم امریکہ نے پوری ذمہ داری ایران پر ڈالی دی۔ توقع کے عین مطابق ایران نے امریکی الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔

حکومتی بیانات سے قطع نظر کچھ تجزیہ نگار ایسے بھی ہیں جو اسرائیل کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ ان نظریہ کاروں کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے علاوہ کسی اور ملک کے پاس اتنے جدید اور مہلک ہتھیار نہیں اور نہ ہی کسی کے پاس اتنی حربی قابلیت ہے۔ مزید براں، خطے میں کسی قسم کی جنگ کا فائدہ صرف اسرائیل کو ہی ہو گا۔

یہ حملے سعودی توانائی کے شعبے کے لیے خاص طور پر ایک غیر مناسب وقت پر ہوئے۔ حکومت اس اہم شعبے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لانے کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم قدم آرامکو کو پبلک کمپنی میں تبدیل کرنا ہے۔ توقع ہے مارکیٹ میں آنے کے بعد دنیا کی سب سے منافع بخش تیل کمپنی کی قیمت 15 سے 20 کھرب ڈالرز کے درمیان ہو گی۔ آئیں پہلے اس صورت حال کے پاکستان پر اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔

پاکستان:

سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ پاکستان کے قریبی اور دوستانہ تعلقات ہیں۔ مسئلۂ کشمیر سے متعلق بھارت کی کارروائی پر سعودی موقف پر کسی حد تک عوامی تحفظات کے باوجود، وزیر اعظم عمران خان نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ٹیلیفون پر اظہارِ یکجہتی کیا اور کہا کہ پاکستان آرامکو پر حملوں کی مذمت اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے مملکت کے اقدامات کی حمایت کرتا ہے۔ 19 ستمبر کو وزیر اعظم نے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا جہاں انہوں نے شاہ سلمان کو پاکستان کی مسلسل حمایت کا یقین دلایا۔

آرامکو حملوں کے باعث تیل کی قیمتوں میں اضافے سے بھی بڑا خطرہ یہ ہے کہ یہ حملہ سعودی عرب اور ایران کے مابین وسیع تر جغرافیائی اور سیاسی محاذ آرائی کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے، جو موجودہ حکومت کی بےسروپا پالیسیوں کی وجہ سے چاروں طرف سے شدید مشکلات میں گھرا ہوا ہے، سعودی - ایران تصادم ایک بہت بڑا چیلنج بن کر سامنے آئے گا۔

اب تک پاکستان دونوں حریفوں کے مابین اپنے تعلقات میں ایک توازن برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے اگرچہ بادی النظر میں جھکاؤ سعودی عرب کی طرف زیادہ نظر آتا ہے۔ اس جھکاؤ کی بنیادی وجہ پاکستان اور سعودی عرب کے قریبی معاشی و اقتصادی تعلقات، مالی امداد، دفاعی تعاون اور سعودی عرب میں لاکھوں پاکستانی تارکینِ وطن کی موجودگی ہے۔

اگر موجودہ صورت حال حربی تنازعے میں بدل جاتی ہے تو پاکستان کو فیصلہ کرنے میں انتہائی مشکل ہو  گی۔ حکومت اور ملک کے لیے بہترین راستہ یہی ہو گا کہ توازن برقرار رکھا جائے جیسا کہ سعودی - یمن تنازعے میں کیا گیا تھا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رکھنا اشد ضروری ہے کہ ایران اور پاکستان کی سرحدیں مشترک ہیں اور دونوں کے مابین کسی قسم کی غلط فہمی خطرناک نتائج  کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معاشی پہلو پر نظر ڈالیں تو تیل کی قیمتوں میں اضافہ پاکستان کی معیشت پر سنگین اثرات مرتب کرے گا۔  پاکستان سعودی عرب سے ہر سال 3.2 ارب ڈالرز کا تیل درآمد کرتا ہے۔ اس میں ادائیگی کی مہلت 12 مہینوں تک ہے جو انتہائی ضروری نقدی بفر مہیا کرتی ہے۔ اگر تیل کی پیداوار کچھ عرصے تک کم رہتی ہے تو اس سے مقامی طور پر تیل کی فراہمی کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

روپے کی قدر میں کمی کا خطرہ بھی موجود ہے اور شرح منافع پر بھی دباؤ برقرار رہنے کا امکان ہے۔ بینک دولت پاکستان، جس سے اس ہفتے منافع کے ریٹس میں کمی کی توقع کی جا رہی تھی، بظاہر اس نئے خطرے کی وجہ سے یہ قدم اٹھانے سے ہچکچا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں پانچ ڈالرز فی بیرل اضافے پر پاکستان 1.2 ارب ڈالرز کا سالانہ نقصان اٹھائے گا۔

آرامکو تنصیبات پر حملے سے ثابت ہو گیا ہے کہ مستقبل میں ایسی تنصیبات جنگی اہداف بن سکتی ہیں۔ ماہرین اندرونِ ملک توانائی کے وسائل کی تلاش کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ملک ان قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے۔

حکومت  کو یہ مشورہ بھی دینا ضروری ہے کہ پچھلی بار کی طرح تیل کی دریافت کا قبل از وقت اعلان کر کے سستی شہرت حاصل کرنے اور عوام کو دوبارہ بے وقوف بنانے کی کوشش نہ کرے۔ تیل اور گیس کی درآمد کی نئی منزلیں تلاش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں طویل مدتی TAPI [ترکمانستان - افغانستان - پاکستان - بھارت] گیس پائپ لائن منصوبے پر پیش رفت اہم ہوگی۔

موجودہ غیر یقینی صورت حال ملک کے لیے سنگین معاشی مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ حکومت کی سمجھ بوجھ سے عاری پالیسیوں نے ملکی معیشت کو پہلے ہی پاتال تک پہنچا دیا ہے۔ اضافی درآمدی بل تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے اٹھائے گئے تمام اقدامات کی نفی کر دے گا۔ تیل کی اضافی قیمتیں ادائیگیوں کے منفی توازن کا باعث بنیں گی۔

اس سے ایک بار پھر پاکستان کے غیر ملکی ذخائر کم ہونے لگیں گے۔ مہنگائی میں مزید اضافہ پہلے سے ہی غربت کے ہاتھوں پسے ہوئے عوام کو ناقابلِ بیان مشکلات میں ڈال دے گا۔ حکومت کو ان مشکلات سے نمٹنے کے لیے نہایت سوجھ بوجھ سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، لیکن اگر پالیسی سازوں میں اتنی عقل و فہم ہوتی تو ملک ایسے دگرگوں حالات پر کیوں کر پہنچتا!

امریکہ - ایران - سعودی عرب:

یہ تباہ کن حملے ایران کے امریکہ، سعودی عرب، جی سی سی کے دیگر ممالک اور اسرائیل کے ساتھ بڑھتے ہوئے تناؤ میں مزید تیزی لائیں گے۔ صدر ٹرمپ کے گدی نشین ہونے کے بعد امریکہ اور ایران کے تعلقات میں سرد مہری کی ایک نئی لہر آئی۔ مئی 2018 میں مشترکہ جامع پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) سے امریکہ کے یک طرفہ انخلا اور ایران پر امریکی پابندیوں کے از سرِنو نفاذ جیسے احمقانہ فیصلوں نے ان تعلقات کو مزید پستی کی طرف دھکیل دیا۔

امریکی قومی سلامتی کے ایران مخالف مشیر جان بولٹن کی حالیہ برخاستگی سے دونوں ممالک کے درمیان سفارت کاری کا ایک نادر موقع پیدا ہوگیا تھا۔ اس ہفتے نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ایرانی صدر حسن روحانی کی متوقع  ملاقات کی افواہیں چہار سو گردش کر رہی تھیں۔ آرامکو حملوں کی وجہ سے اب کسی ایسے امکان کو مسترد کیا جا رہا ہے۔

تاہم، اشتعال انگیز بیانات اور ٹویٹس کے باوجود، تسلی بخش امر یہ ہے کہ امریکی اور سعودی عہدے داروں نے حملوں پر اپنے ردعمل میں احتیاط کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا اگرچہ امریکہ جنگ کے لیے تیار ہے، لیکن پھر بھی وہ اس سے احتراز کرنا چاہتے ہیں۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے امریکہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ یمن میں ایران - سعودی پراکسی جنگ میں پہلے سے ملوث ہونے کی وجہ سے، کسی نئےحربی اقدام سے تناؤ میں مزید اضافہ ہوگا اور ایک بڑے فوجی تصادم کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

ٹرمپ نے مشرق وسطی میں سے امریکہ کو بے مقصد جنگوں سے نکالنے کی بنیاد پر اپنی انتخابی مہم چلائی تھی نہ کہ نئی جنگیں شروع کرنے پر۔ اپنے زوردار بیانات اور دھمکی آمیز ٹویٹس کے باوجود انہوں نے کچھ قریبی مشیروں اور سیاسی حلیفوں کی ایران پر بمباری کی تجاویز سختی سے مسترد کی ہیں۔ جنگ کی بجائے صدر ٹرمپ نے تہران پر پابندیاں بڑھانے، ایران کے خلاف عالمی اتحاد مضبوط بنانے اور کچھ خفیہ سائبر آپریشن شروع کرنے کا انتخاب کیا ہے۔

تہران میں دو خواتین دیوار پر نقش ایرانی پرچم کے آگے سے گزر رہی ہیں (اے ایف پی)

سعودی عرب جو کہ فی الوقت یمن کی جنگ میں بری طرح الجھا ہوا ہے، اس وقت ایک اور محاذ کھولنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچے گا۔ تیل کی تنصیبات پر ایک اور حملہ نہ صرف ملک بلکہ پوری دنیا پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرے گا۔ ایران مسلسل معاشی مشکلات اور ملک کے قیمتی وسائل دوسروں کی جنگوں میں جھونکنے کے باعث اس قابل نہیں رہا کہ کوئی نئی مہم جوئی کر سکے۔ 

21 ستمبر کو امریکی محکمہ دفاع نے اعلان کیا کہ سعودی عرب کی درخواست پر سینکڑوں امریکی فوجی، دفاعی سازوسامان کے ساتھ سعودی عرب بھیجے جا رہے ہیں۔  اس اعلان نے طرفین کا درجہ حرارت اور فشار خون پھر بلند کر دیا ہے۔ امریکی فوجیوں کی تعداد، جو ممکنہ طور پر ایک ہزار سے کم ہو گی، کوئی بھی موثر حملہ کرنے کے لیے کافی نہیں۔

معیشت پر اثرات:

اس حملے کے نتیجے میں فوری طور پر عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں 19.5 فیصد بڑھ کر 71.95 ڈالرز فی بیرل ہوگئیں۔ تاہم، جب امریکہ نے اپنے ذخائر کھولنے کا اعلان کیا اور سعودی حکومت نے دنوں کے اندر فراہمی دوبارہ شروع کرنے کی یقین دہانی کرائی، تو قیمتیں قدرے کم ہو گئیں۔ توانائی کے بیشتر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ توقع سے پہلے، یعنی دو سے تین ہفتوں میں ہی صورت حال معمول پر آجائے گی ۔

اگر جنگ سے بچاؤ کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے اور اس کا امکان واضع طور پر نظر آرہا ہےتو موجودہ علاقائی صورتِ حال خطے کی معیشت اور نتیجتاً عوام کے معیار زندگی کے لیے قطعی طور پر موزوں نہیں ہے۔

امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران کی معیشت پہلے سے ہی گہرے انحطاط کا شکار ہے۔ ظاہر ہے اس کا اثر سب سے پہلے عوام پر ہی پڑتا ہے۔ امریکی حملوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خانہ جنگی کی وجہ سے عراق بھی طویل عرصے سے غربت کی لپیٹ میں ہے۔ شام کا حال بھی مختلف نہیں۔

دبئی، جو اس خطے میں معاشی لبرل ازم اور خوشحالی کا ایک ماڈل سمجھا جاتا ہے، مالی طور پر لاچار نظر آ رہا ہے۔ لبنان کی معیشت بیچ منجدھار پھنسی ہوئی ہے۔ ترکی کساد بازاری کا شکار ہے۔ اسرائیلی معیشت بھی کچھ کم مشکلات کا شکار نہیں۔

اگرچہ سعودی حکام نے متعدد بار یقین دلایا ہے لیکن آرامکو حملے کی وجہ سے سرمایہ کاروں میں آرامکو کی متوقع عوامی لسٹنگ کے بارے میں فی الوقت زیادہ جوش و خروش نہیں پایا جاتا، کسی ناکامی کی صورت میں مملکت کے ترقیاتی اہداف پورا کرنا آسان نہ ہو گا۔

تیل کی تنصیبات پر حملے کے اثرات خطے سے باہر ممالک پر بھی پڑیں گے لیکن ان معاشی اور سیاسی مضمرات کو واضح ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ ایشیا میں سعودی تیل کی یومیہ برآمدات چار ملین بیرل سے زیادہ ہیں۔ حملوں کے نتیجے میں پیداوار میں کمی سے چین اور جاپان جیسے ممالک کو سب سے زیادہ مالی نقصان پہنچے کا خدشہ ہے کیونکہ ان کا مشرقِ وسطٰی کے تیل اور گیس پر سب سے زیادہ انحصار ہے۔

اس کے علاوہ ان کی ریفائنریز صرف مشرقِ وسطٰی کے تیل اور گیس کے لیے موزوں ہیں۔ حملوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال ایشیائی ممالک کو مشرق وسطی سے باہر تیل کے ذخائر میں زیادہ سرمایہ کاری کرنے پر سوچنے پر مجبور کرے گی۔ امکان ہے وہ آہستہ آہستہ اپنے ذرائع درآمد متنوع بنانے کی کوشش کریں گے جس کا فائدہ امریکہ  اور روس دونوں اٹھا سکتے ہیں۔

دنیا کے سب سے بڑے تیل کے درآمد کنندہ کی حیثیت سے چین خاص طور پر توانائی کی عالمی منڈیوں میں اتار چڑھاؤ کے رحم و کرم پر ہے۔ مشرق وسطٰی چین کی توانائی کی درآمدات کا ایک اہم ستون اور اس کے بیلٹ اینڈ روڈ  منصوبے (بی آر آئی) کا ایک اہم مرکز ہے۔ خطے اور خلیج فارس میں استحکام چین کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ایران پر امریکی پابندیوں کے نتیجے میں بیجنگ کا سعودی تیل پر انحصار بڑھ گیا ہے، جو اب چین کی تیل کی درآمدات کا 16 فیصد ہے۔

ایرانیوں نے بروقت چین کے ساتھ روابط بڑھا کر امریکہ - سعودی عرب - عرب امارات کے گٹھ جوڑ کے مقابلے میں اپنی پوزیشن مضبوط کر لی ہے۔ دونوں ممالک نے باہمی تعاون کے بارے میں پہلے سے طے شدہ سمجھوتہ بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے، جسے اب ’اسٹریٹجک شراکت داری‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اگلی دہائی میں دوطرفہ تجارت 600 ارب ڈالرز تک بڑھنے کا منصوبہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس خطے میں چین کے مفادات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر